پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے کا حق ہونا چاہیے، اسے شمار بھی کیا جانا چاہیے، بلاول بھٹو
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اراکین پارلیمان کو پہلے کی طرح نہ صرف پارٹی پالیسی کے خلاف اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق ہونا چاہیے بلکہ ان قانون سازوں کا ووٹ شمار بھی ہونا چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کا اجلاس ہوا، پیپلز لائرز فورم کے مرکزی صدر نیر بخاری، رکن قومی اسمبلی نوید قمر اور سیاسی مشیر جمیل سومرو بھی اجلاس میں موجود تھے۔
چیئرمین پیپلز پارٹ نے پیپلز لائرز فورم کے صوبائی صدور کو مجوزہ آئینی ترمیم پر اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا، بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کے درمیان مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق تبادلہ خیال بھی ہوا۔
بلاول بھٹو اور پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کے درمیان مجوزہ آئینی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی، اس موقع پر پی ایل ایف وسطی پنجاب کے صدر راحیل چیمہ، جنوبی پنجاب کے صدر شیخ غیاث، خیبرپختونخوا کے صدر گوہر رحمٰن ، بلوچستان کے بہرام خان اور سندھ کے صدر قاضی بشیر بھی موجود تھے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی ترامیم کا زیرگردش مبینہ مسودہ اصل نہیں ہے، حکومت ججوں کی عمر سے متعلق تبدیلیاں چاہتی تھی، حکومت نے چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ عمر 3 سال کے ساتھ 67 سال کرنے کی تجویز دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت واقعی فوجی عدالتوں کے حوالے سے قانون سازی ضروری سمجھتی ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ قومی سلامتی اجلاس بلایا جائے، آئینی ترامیم کا زیرگردش مبینہ مسودہ اصل نہیں ہے، پاکستان پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت اور اپنے منشور کے تحت مجوزہ ترمیم میں آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پی پی پی نے مجوزہ آئینی ترمیم میں ججوں کی عمر کے معاملے پر کوئی بات نہیں کی جب کہ حکومت ججوں کی عمر سے متعلق تبدیلیاں چاہتی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی نے ججوں کی ملازمت کی ابتدا کی عمر کی حد کم کرنے کی حمایت کی جس پر حکومت نے اتفاق کیا اور اسے مسودے میں شامل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ عمر 3 سال کے ساتھ 67 سال کرنے کی تجویز دی تھی، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ججوں کی موجودہ عمر کی حد 65 سال برقرار رکھنے کی تجویز دی، ججوں کی عمر کے معاملے سے آئینی ترمیم میں چھیڑچھاڑ سے لگے گا کہ ہم کسی خاص فرد کو عہدے سے باہر یا اندر رکھنا چاہتے ہیں جو نامناسب ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جسٹس منصور علی شاہ اگلے چیف جسٹس ہوں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصور علی شاہ اس بینچ کا حصہ تھے جس نے شہید ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کا تاریخی فیصلہ سنایا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصور علی شاہ کے لئے میرے دل میں بہت عزت ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے حوالے سے اصولی موقف رکھتی ہے اور ان کی حمایت نہیں کرتی، اگر حکومت واقعی فوجی عدالتوں کے حوالے سے قانون سازی ضروری سمجھتی ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ قومی سلامتی اجلاس بلایا جائے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کے فیصلے نے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا ہے، اراکین پارلیمان اگر پارٹی پالیسی کے خلاف اپنا ووٹ دیں گے تو وہ نہ صرف اپنی رکنیت کھو دیں گے بلکہ ان کا ووٹ بھی نہیں گنا جائے گا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اراکین پارلیمان کو پہلے کی طرح نہ صرف مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق ہونا چاہئیے بلکہ ان کا ووٹ شمار بھی ہونا چاہئیے، آئینی ترامیم کا زیرگردش مبینہ مسودہ اصل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔