• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

عسکری قیادت نے کہا نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے آپ دہشتگردی ختم نہیں کر سکے، وزیر قانون

شائع September 18, 2024
فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عسکری قیادت نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہمیں کنفرنٹ کیا کہ آپ نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکے۔

اسلام آباد میں منعقدہ وکلا نمائندہ تنظیموں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہمیں کنفرنٹ کیا گیا کہ آپ نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکے، ہمارے نوجوان دیتے ہیں، کیا جو وردی میں قربانیاں دیتے ہیں، ان کے اہل خانہ کیا پاکستانی نہیں، کیا ان کی رگوں میں خون نہیں دوڑتا۔

انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت نے کہا کہ سول سائیڈ ہمیں اعداد و شمار کے ساتھ بتادے کہ آج تک کتنے دہشت گردی کے مقدمے ہوئے ہیں جن میں افواج کے لوگ اور عام شہری شہید ہوئے اور دہشت گردوں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزائیں ہوئی ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اجلاس کے دوران اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ اس ملک کا جو سب سے بڑا مقدمہ تھا جس میں محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، اس کیس میں بہت اچھی تفتیش ہوئی، میں اس کا حصہ تھا، اس میں پولیس کی ایک ٹیم کو سزا دے دی گئی۔

وزیر قانون نے کہا کہ اس کیس میں ہوا کیا، جو سہولت کار تھے، دہشت گرد تھے، ان کے بارے میں ڈی این اے شواہد تھے، بالوں کے نمونے میچ ہوئے تھے، جہاں سے یہ وہ جوتے خریدے گئے، وہاں کی فوٹیج تھی، وہ رسیدیں ان کی جیبوں سے نکلیں، کافی چیزیں تھیں، جب فیصلہ ہوا تو یک دم خبر آئی کہ وہ جو سہولت کار ہیں دہشت گرد، انہیں بری کردیا گیا ہے اور وہ ملازمین جو وہاں ڈیوٹی پر تھے، انہیں سزائیں دے دی گئی ہیں، بعد میں پتا چلا کہ جج صاحب کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ کہ یہ بات اجلاس میں کہی گئی کہ راہ حق کے شہیدوں کے ترانے پر آنسو بہانے سے ہمارے زخموں کا خشک ہونا ممکن نہیں ہے، عسکری قیادت نے کہا ملک کے لیے جانیں دینے والوں کے گھر بار نہیں ہوتے؟

وزیر قانون ہمارے ورثا کو تسلی تب ہوگی جب ہمارے جوانوں کے قاتل سولی پر چڑھیں گے، سخت گفتگو تھی لیکن اس کے باوجود سیاسی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے سول سائیڈ پر ڈیل کیا جائے اور اسی وجہ سے اصلی مسودے میں یہ بات شامل کی گئی کہ اگر ان کی تنصیبات اور ان کے اہلکاروں پر حملے ہوتے ہیں تو اس حد تک ان مقدمات کو فوجی عدالتیں دیکھ سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مشکور ہوں کہ انہوں نے موقع دیا، فروری کے آخر میں پیپلز پارٹی سے قانون سازی سے متعلق مذاکرات کیے، میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھا، پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالتی ریفارمز کا مطالبہ سامنے آیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالتی ریفارمز ہمارے منشور کا بھی حصہ تھے، پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے نامکمل ایجنڈے پر کام کرنے کا کہا، 24 مئی 2024 کو ملک کے پانچوں بار کونسلز کے نمائندگان سے ملاقات ہوئی۔

وزیر قانون نے کہا کہ قانون سازی کے مختلف مرحلے ہوتے ہیں، وکلا بہتر جانتے ہیں، آج بھی جو پیکج گردش کر رہا ہے، ڈرافٹ عارضی ہوتا ہے، ڈرافٹ اس وقت تک فائنل نہیں ہوتا جب تک کابینہ کی منظوری نہ مل جائے، پھر بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے، پھر معاملہ کمیٹی میں بھی جا سکتا ہے، یہ معاملہ آئینی ترمیم کا ہے، اس نے دو تہائی سے منظور ہونا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی، بار کونسلز کی تجاویز اور سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو سامنے رکھا گیا،چارٹر آف ڈیموکریسی 2006 میں آیا، چارٹر آف ڈیموکریسی میں آئینی عدالت کے قیام کا کہا گیا، آئینی عدالت کیا ہے؟ آئینی عدالت ایک الگ سے عدالت ہے جو آئینی آرٹیکلز کے تحت اختیارات استعمال کرے، ہمارے ذہن میں خاکہ یہ ہے کہ آئینی عدالت کے 7 یا 8 ججز ہوں، آئینی عدالت میں تمام صوبوں اور اسلام آباد سے نمائندگی شامل ہو۔

وزیر قانون نے کہا کہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ آئینی عدالت کی گنجائش ہمارے آئینی فریم ورک میں ہے یا نہیں، تمام بار کونسلز اپنے لیگل ایکسپرٹ کی کمیٹی بنا کر ہماری رہنمائی فرمائیں، میں آپ کا ہی حصہ ہوں، ہمیں تجاویز دیں، آئینی عدالت کا کس طرح کا ماڈل رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی ترامیم میں صرف 4 چیزیں ہیں، باقی جو 40 چیزیں ہیں وہ آئینی عدالت کا نام جگہ جگہ شامل کرنا ہے اس کیلئے ہے، آئین کے آرٹیکل 9 اے میں ترمیم ہے صاف و شفاف ماحول سے متعلق، ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور ماحول کو بہتر بنانے کیلئے یہ ترمیم ہے، جوڈیشل کمیشن سے متعلق ترامیم میں کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے مستقل سیکرٹریٹ بنانے کی تجویز بھی ہے، اس کے علاوہ یہ بتا دیں کہ اعلیٰ عہدے پر بیٹھے جج کام نہ کرے تو ہم اس کو گھر نہ بھیجیں؟ صوبوں میں ہر ہائیکورٹ کے ججز کی پرفارمینس کا جائزہ لیا جائے گا، کیا یہ عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے ہے؟ کمیٹی ہمیں بتائے اگر ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ عدالتی ترامیم میں ججز کے تبادلے سے متعلق بھی ترمیم ہے، آج سے قبل صدر مملکت چیف جسٹس کی سفارش پر تبادلے کرتے تھے، ترمیم کے بعد تبادلے جوڈیشل کمیشن کیا کرے گا، جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیئرمین نہیں بلا رہا تو کمیشن کے ون تھرڈ ممبران بلا سکیں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائر عیسیٰ کو نوازے جانے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے ممبران بھی ججز تعیناتی کے لیے امیدوار تجویز کر سکیں گے، کسی ایک شخص کو نظر میں رکھ کر قانون سازی کو نہ دیکھیں، ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ موجودہ چیف جسٹس ہی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہوں گے، یوں مسئلہ بھی حل ہوتا تھا، لیکن ہم نے یہ بات ہی نہیں کی۔

آئینی عدالت کا قیام وقت کی ضرورت ہے، فاروق نائیک

فاروق ایچ نائیک نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئین ایک زندہ دستاویز ہے ناکہ مردہ، زندہ دستاویز کا مطلب یہ کہ اس میں تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں، قرارداد مقاصد میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کا کہا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک میں بھی آئینی عدالتیں موجود ہیں، آئینی عدالت کا قیام وقت کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ میں ضابطہ فوجداری و دیوانی مقدمات زیر التوا ہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ آئینی عدالت عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عدلیہ کی آزادی کے برخلاف نہیں تو آئینی عدالت کا ضرور قیام ہونا چاہیے، وزیر قانون سے درخواست ہے مسودے کو حتمی شکل دیں اور پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار سے شیئر کریں، ہم چاہتے ہیں کہ ایک اچھی سوچ ضائع نہ ہو جائے، مجھے سمجھ نہیں آتی آئینی عدالت کا قیام اٹھارویں ترمیم کا حصہ کیوں نہ بنی، چاہوں گا کہ ہم ایک کمیٹی بنائیں اور حکومت ہم سے ڈرافٹ شیئر کرے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آئینی عدالت کے قیام کو پایا تکمیل تک پہنچائیں، کمیٹی ایک ایسا مسودہ تیار کرے جو قوم، جمہوریت اور ملک کی بقا کے لیے ہو۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024