• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm

آئینی ترمیمی بل آج بھی قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان نہیں، کابینہ اجلاس بھی مؤخر

شائع September 16, 2024
— فوٹو: ڈان
— فوٹو: ڈان

آئینی ترمیمی بل آج بھی قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان نہیں ہے، قومی اسمبلی کے معمول کے 3 نکاتی ایجنڈے پر کارروائی ہوگی جب کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس آج شیڈول نہیں جس کے باعث کابینہ سے اس کی منظوری مزید تاخیر کا شکار ہوگئی۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی وسینیٹ ارکان کو بتایا گیا ہے کہ آج کے اجلاس میں اس طرح کی کوئی چیز شیڈول میں شامل نہیں ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز بھی مولانا فضل الرحمٰن آئینی ترمیم سے متعلق تیار نہیں تھے اور آج بھی یہی صورتحال ہے، تو جب تک جے یو آئی ف کے سربراہ سمیت دیگر اتحادیوں کو مطمئن نہیں کردیا جاتا تب تک کابینہ سے منظوری بھی نہیں ہوگی اور قومی اسمبلی میں بھی بل پیش نہیں کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم سے متعلق بل حکمران اتحاد کی بھرپور کوششوں کے باوجود اتوار کو بھی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا، کیونکہ حکومت آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

آئینی ترمیم کے معاملے پر گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس کئی گھنٹے التوا کا شکار ہونے کے بعد 12 گھنٹے بعد شروع ہوا اور اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس آج دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز شام 4 بجے ہونا تھا لیکن بعد ازاں یہ تاخیر کا شکار ہو ا اور پھر 4 گھنٹے بعد رات 8 بجے موخر کردیا لیکن 8 بجے بھی اجلاس شروع نہ نہ ہو سکا، رات 11 بجے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا لیکن چند منٹ تک جاری رہا۔

اس سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر تین بجے ہونے والا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہو سکا، کابینہ کا اجلاس دن 11 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن پھر اسے 3 بجے تک موخر کردیا گیا تھا اور پھر شام 5 ہونا تھا جو نہ ہوسکا۔

طریقہ کار کے مطابق، آئینی ترمیم کو پہلے وفاقی کابینہ سے منظوری دینی ہوگی، جس کے لیے کہا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس آج شیڈول ہے اور اجلاس میں آئینی پیکج کی منظوری دینے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔

سینیٹ اجلاس کیلئے 6 نکاتی ایجنڈا جاری

دوسری جانب سینیٹ کا اجلاس آج دوپہر ساڑھے 12 بجے ہوگا، سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے اجلاس کے لیے 6 نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا گیا۔

سینیٹ کے آج ہونے والے کے اجلاس کے ایجنڈے میں بھی آئینی ترمیم شامل نہیں ہے، گزشتہ روز بغیر کسی کارروائی کے رات گئے اجلاس ملتوی کر دیا گیا تھا۔

سینیٹ اجلاس میں پراپرٹیز مینجمنٹ ترمیمی بل 2024 ایجنڈے کا حصہ ہے، حکومتی ملکیتی اداروں کی مینجمنٹ اور گورننس سے متعلق ترمیمی بل ایجنڈے میں شامل ہیں۔

دونوں بل سینیٹر انوشہ رحمٰن کی جانب سے ایوان میں پیش کیے جائیں گے، 7 ستمبر 1974 کے تاریخی یادگار دن کے حوالے سے قرارداد ایجنڈے کا حصہ ہے جب کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرارد دینے کے تاریخی دن کے حوالے سے قرارداد مولانا عطاء الرحمن پیش کریں گے۔

گزشتہ روز وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور آئینی ترمیم ایک سنجیدہ معاملہ ہے تو جب تک وسیع تر سیاسی مشاورت مکمل نہیں ہو جاتی ہے تو اس پر آگے بڑھنے میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے اور جب آئین پاکستان میں ترمیم کی جاتی ہے تو بہت سنجیدگی سے ایک ایک شق اور لفظ پر غور کیا جاتا ہے، باقاعدہ بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے اور قانونی ماہرین سے ایک ایک نکتے پر رائے طلب کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

تاہم آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کے حوالے سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز رات گئے بلاول بھٹو اور محسن نقوی نے فضل الرحمن سے طویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی تھی۔

مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد کی ملاقات کے بعد پی ٹی آئی وفد بھی پہنچ گیا تھا جس کی قیادت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کی جبکہ وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب، شبلی فراز اور صاحبزاہ حامد رضا شامل تھے۔

حکومت کو قومی اسمبلی میں مزید 13 ارکان کی حمایت درکار

آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے حکومتی بینچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم پاکستان کے 22 ارکان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کے ساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 8 جب کہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔

سینیٹ میں حکومت کو مزید 9 ارکان کی حمایت درکار

آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔

اعلیٰ ایوان کی اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے، اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024