• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

مجوزہ ترامیم سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کی ترمیم شامل نہیں

شائع September 15, 2024
—فائل فوٹو:
—فائل فوٹو:
فوٹو:ڈا نیوز
فوٹو:ڈا نیوز

حکومت کی جانب سے مجوزہ ترامیم سے متعلق بعض اہم نکات سامنے آگئے جن میں ججز کو نکالنے کا طریقہ کار بھی طے کیا جائے گا جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں اضافے کی ترمیم شامل نہیں ہے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سامنے آنے والی مجوزہ ترامیم میں آئینی عدالت کے قیام سے متعلق ترمیم میں شامل ہے، اس کے علاوہ آئینی ترمیم میں ججز کو نکالنے کا طریقہ کار بھی طے کیا جائےگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق جو نکتہ انیسویں ترمیم میں واپس کیا گیا، اس کو بحال کیا جائے گا، آئینی ترمیم میں 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں سے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں کیا جائےگا، آئندہ چیف جسٹس کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے گا جس کے تحت سینئر ترین 5 ججز میں سے کوئی ایک آئندہ چیف جسٹس تعینات کیاجائےگا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی آئینی ترمیم بھی مسودے میں شامل ہے جب کہ آئینی ترمیم میں ازخود نوٹس کی دفعہ 184 تھری میں ترمیم کی بھی تجویز ہے، ججوں کا تقرر کرنے والی باڈی کی تشکیل نو بھی مسودے میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ اس میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرکے کمیٹی بنانے کی بھی تجویز ہے، ایڈہاک ججز کی تقرری کی دفعہ 181 میں ترمیم اور آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کی تجویز مسودے میں شامل ہے۔

رپورٹس کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی عدالت میں 184، 185، 186 سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوگی، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل بھی آئینی عدالت میں سنی جائے گی۔

دوسری جانب وفاقی کابینہ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس تاخیر کا شکار ہیں، قومی اسمبلی کا جو اجلاس آج شام 4 بجے ہونا تھا، مزید 4 گھنٹے تاخیر کے بعد اب رات 8 بجے شروع ہونے کا امکان ہے جس میں ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

ادھر وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر 3 بجے ہونے والا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہو سکا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔

کابینہ کا اجلاس دن 11 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن پھر اسے تین بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن یہ شام پانچ بجے تک شروع نہ ہو سکا۔

اس سے پہلے ایوان بالا سینیٹ کا اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوا تھا اور 4 بجے شروع ہونے والا اجلاس 7 بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی اجلاس میں تاخیر کے سبب اب سینیٹ کا اجلاس مزید ملتوی ہونے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس آج طلب کر رکھا ہے، ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں وفاقی کابینہ سے آئینی ترمیم کے پیکج کی منظوری لی جائے گی۔

اس کے علاوہ آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کیے گئے ہیں جب کہ پارلیمنٹ کا ہفتے کے آخر میں اجلاس بلانا غیر معمولی ہے کیونکہ عام طور پر بجٹ سیشن یا کسی حساس مسئلے کے لیے اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے باضابطہ طور پر جاری کیے گئے ایجنڈے میں ترمیم کا کوئی ذکر شامل نہیں تھا لیکن اس طرح کی چیزیں عام طور پر ایک ضمنی ایجنڈے کے حصے کے طور پر ایوان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔

آج ہونے والے خصوصی اجلاس کے لیے جمعے کے روز جاری کردہ ایجنڈہ ہی جاری کیا گیا تھا جہاں ایجنڈے میں آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ ادائیگیوں سے متعلق ایم کیو ایم کا توجہ دلاؤ نوٹس شامل تھے جبکہ اس کے علاوہ ایجنڈے میں پاکستان ترقی معدنیات کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل تھا۔

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے اراکین کو وفاقی دارالحکومت میں ہی رہنے کی ہدایت کر رکھی ہیں تاکہ قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ پی پی پی کی ایم این اے نفیسہ شاہ گزشتہ روز اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی سالگرہ منانے کے لیے اپنے آبائی شہر جانا چاہتی تھیں، لیکن انہیں وفاق سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ 3 روز قبل سیاسی جماعتوں کے درمیان چارٹر آف پارلیمنٹ کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے 18 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں 12 حکومتی اور 6 اپوزیشن اراکین شامل ہیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی تجویز پر پارلیمانی کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024