• KHI: Maghrib 5:53pm Isha 7:15pm
  • LHR: Maghrib 5:09pm Isha 6:36pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:38pm
  • KHI: Maghrib 5:53pm Isha 7:15pm
  • LHR: Maghrib 5:09pm Isha 6:36pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:38pm

قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم، مولانا فضل الرحمٰن کی آئینی بل پر مشاورت کی تجویز

شائع September 15, 2024 اپ ڈیٹ September 16, 2024
—فائل فوٹو: قومی اسمبلی/ فیس بُک
—فائل فوٹو: قومی اسمبلی/ فیس بُک
فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

آئینی ترمیم کے حوالے سے مشاورت کے لیے ملک کے ایوان زیریں قومی اسمبلی کی پارلیمانی امور سے متعلق خصوصی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا جس میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن آئینی ترمیم پر فیصلے سے قبل مزید مشاورت کی تجویز دی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق چارٹر آف پارلیمنٹ کے لیے تشکیل کردہ حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں پر مشتمل قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین خورشید شاہ کی زیرصدارت ہوا۔

خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے سے متعلق مشاورت ہوئی جہاں اجلاس میں حکومتی اتحادی اور اپوزیشن میں سے 13 سینیٹرز اور 7 اراکین قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہوئے۔

ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں مجوزہ آئینی بل کو مؤخر کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اتنی اہم قانون سازی چند گھنٹے میں ممکن نہیں اور ڈرافٹ پر مزید مشاورت ناگزیر ہے۔

بعدازاں اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا اور کل کمیٹی کا اجلاس دوبارہ ہو گا۔

اجلاس کے آغاز سے قبل پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ نے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی بھی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے جہاں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کمیٹی کو مجوزہ آئینی ترمیم پر بریفنگ دی، سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن، وزیر قانون اعظم تارڑ، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان بھی کمیٹی اجلاس میں شریک تھے۔

اجلاس سے قبل سربراہ جے یو آئی نے پارلیمنٹ آمد کے موقع پر صحافی نے سوال کیا تھا کہ آئینی ترمیم کا مسودہ اب تک آپ کو نہیں دیا گیا، کیا حکومت کو آپ پر اعتماد نہیں؟ جس پر مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ یہ سوال آپ حکومت سے پوچھیں۔

صحافی نے سوال کیا تھا کہ آپ کے جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔

قبل ازیں قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پر درکار ووٹوں کے حصول کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کے لیے کوشاں رہیں اور حکومتی وفد کی جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ سے ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا وفد بھی مولانا کو منانے پہنچا۔

حکومتی وفد میں ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ شامل تھے۔

حکومتی وفد کے واپس لوٹنے کے بعد پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے لیے ان کی رہائشگاہ پہنچا، وفد میں اسد قیصر اور شبلی فراز شامل تھے۔

حکومت اور اپوزشن کے وفود سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اپنی رہائش گاہ سے پارلیمنٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے جہاں وہ قومی اسمبلی کی پارلیمانی امور سے متعلق خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس آج طلب کر رکھا ہے، ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں وفاقی کابینہ سے آئینی ترمیم کے پیکج کی منظوری لی جائے گی۔

اس کے علاوہ آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کیے گئے ہیں جب کہ پارلیمنٹ کا ہفتے کے آخر میں اجلاس بلانا غیر معمولی ہے کیونکہ عام طور پر بجٹ سیشن یا کسی حساس مسئلے کے لیے اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے باضابطہ طور پر جاری کیے گئے ایجنڈے میں ترمیم کا کوئی ذکر شامل نہیں تھا لیکن اس طرح کی چیزیں عام طور پر ایک ضمنی ایجنڈے کے حصے کے طور پر ایوان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔

آج ہونے والے خصوصی اجلاس کے لیے جمعے کے روز جاری کردہ ایجنڈہ ہی جاری کیا گیا تھا جہاں ایجنڈے میں آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ ادائیگیوں سے متعلق ایم کیو ایم کا توجہ دلاؤ نوٹس شامل تھے جبکہ اس کے علاوہ ایجنڈے میں پاکستان ترقی معدنیات کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل تھا۔

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے اراکین کو وفاقی دارالحکومت میں ہی رہنے کی ہدایت کر رکھی ہیں تاکہ قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ پی پی پی کی ایم این اے نفیسہ شاہ گزشتہ روز اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی سالگرہ منانے کے لیے اپنے آبائی شہر جانا چاہتی تھیں، لیکن انہیں وفاق سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ 3 روز قبل سیاسی جماعتوں کے درمیان چارٹر آف پارلیمنٹ کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے 18 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں 12 حکومتی اور 6 اپوزیشن اراکین شامل ہیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی تجویز پر پارلیمانی کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 30 دسمبر 2024
کارٹون : 29 دسمبر 2024