پاکستان میں آئین کی ساکھ کیسے بحال ہوگی؟
اس سے قبل لکھے جانے والے ایک کالم میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے جس میں اسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ اور اس پر قابو پانے کے بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ایک جانب آبادی میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے جبکہ بہتر زندگی کے مواقع آبادی کے متوازی نہیں۔ دوسری جانب ریاست کی کم ہوتی صلاحیت اور لوگوں کی توقعات کے درمیان فرق کی وجہ سے چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی ادارے جن پر ریاست کا ڈھانچہ منحصر ہے، وہ بڑی حد تک غیر فعال ہوچکے ہیں جوکہ مایوسی پھیلانے اور حوصلہ شکنی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
امن برقرار رکھنا ریاست کا بنیادی فریضہ ہے لیکن حالیہ واقعات اس صلاحیت میں ریاست کی ناکامی کو ظاہر کررہے ہیں۔ انتشار سے بلوچستان شدید خطرات کا سامنا کررہا ہے جوکہ اتحاد کا احساس پیدا کرنے میں حب الوطنی کی تقاریر کی ناکامی کی عکاس ہے۔ بیگانگی کا یہ احساس لوگوں میں سیاسی پسماندگی اور وسائل پر مؤثر کنٹرول نہ ہونے کے تاثر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں جاری جان لیوا جھڑپوں کا دائرہ اب ڈیرہ غازی خان، مردان اور سوات تک پھیل چکا ہے۔ بالائی سندھ اور جنوبی پنجاب کے دریائی کناروں پر بھی صورت حال تشویش ناک ہے۔ ان علاقوں پر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کا راج ہے جبکہ وہ اپنی سرگرمیوں کو توسیع دے رہے ہیں۔
ریاست کی جانب سے انصاف فراہم کیے جانے کی صلاحیت میں بھی نمایاں کمی آئی ہے، یہ عدالتی نظام کی کسی معاہدے کو نافذ کرنے، تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کرنے یا مجرمان کا احتساب کرنے میں ناکامیوں سے نظر آتا ہے۔ اس نے قانون کی حکمرانی کو مجروح کیا ہے جو ایک فعال ریاست کے لیے اہم شرط ہے۔
مختصر یہ کہ گورننس کا پورا ڈھانچہ ہی بہ مشکل کام کررہا ہے جوکہ آج کے دور میں درپیش چیلنجز کا تدراک کرنے میں ناکام ہے۔ اگرچہ بہت کم لیکن کچھ حد تک اصلاحات کی کوششیں کی گئیں لیکن بیوروکریسی نے انہیں کامیابی سے ناکام بنا دیا۔
ریاست میں حکمرانی کی جنگ بھی ایک تشویش ناک منظر پیش کرتی ہے۔ آئین کے متن سے قطع نظر اسٹیبلشمنٹ تمام ریاستی اداروں کے کام میں اپنی شمولیت کے ذریعے مؤثر طریقے سے حکمرانی کرتی ہے۔
یہ دکھانے کے لیے طاقت عوام کے ہاتھ میں ہے، ایک کمزور سویلین سیٹ اپ عوام پر مسلط کردیا گیا ہے جس کی خواہش بھی انہیں نہیں تھی۔ اور پھر اس نظام کو مضبوط کرنے کے لیے اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے اور تمام مشکلات کا راستہ روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا، آئین کی خلاف ورزی کی گئی، عدلیہ کو دھمکایا گیا اور پارلیمنٹ کو کمزور کردیا گیا۔
نتیجتاً موجودہ حکمران اور ان کی سرپرستی کرنے والے اداروں میں اخلاقی جواز کا فقدان ہے جبکہ انہیں عوام کی سرپرستی اور حمایت بھی حاصل نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے بانی عمران خان کے خلاف کارروائیوں نے لاکھوں لوگوں کو ریاست سے مزید دور کردیا ہے جوکہ انتخابی نظام کی سالمیت پر اعتماد کھو چکے ہیں اور خود کو الگ تھلک محسوس کررہے ہیں۔ بلوچستان میں پہلے سے ہی شدید بیگانگی نمایاں ہے۔ حکومتی مینڈیٹ سے انکار، ریاست اور عوام کے درمیان عدم اطمینان کو بڑھاتا ہے۔
ہمارے خیال میں معیشت، سلامتی، انصاف اور خدمات کی فراہمی کے مسائل پر پیش رفت صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب ریاست کے بنیادی تنظیمی انتظامات کو نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی جواز بھی حاصل ہو۔ آج اداروں کے پاس اس کی کمی ہے اور عوام کی سرپرستی حاصل نہیں۔
قانونی ساکھ کا فقدان اس بیگانگی کے احساس کو جنم دے رہا ہے اور گورننس کے نظام کو مشکل بنا رہا ہے۔ انتظامیہ کے کئی عناصر میں عوام کی فعال شرکت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر کوئی بھی کام خواہ وہ ترقی ہو یا سیکورٹی، دشوار ہوجاتا ہے۔
فی الوقت بغاوت کی اٹھتی ہوئی آوازوں کو سنبھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوامی حمایت کے بغیر اس سے نمٹا نہیں جاسکتا۔ اور مجموعی طور پر دہشتگردی کے حوالے سے بھی اسی جواز کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس طرح ریاست کے لیے ایک وجودی چیلنج براہ راست قانونی ساکھ اور لوگوں کی شرکت سے منسلک ہے۔
زیادہ تر تعریفوں کے مطابق قانونی ساکھ کا مطلب قانون کی حکمرانی سے لیا جاتا ہے۔ کسی بھی ریاست کا بنیادی قانون، اس کا آئین ہوتا ہے۔ آئین کے سخت نفاذ سے ہی نظام کی قانونی ساکھ بحال ہوگی۔ اگرچہ یہ ایک ضروری شرط ہوسکتی ہے لیکن صرف یہی کافی نہیں ہے۔ آئین کو جوڑ توڑ کرکے بگاڑا جاسکتا ہے اور بعض اوقات صرف یہی نہیں بلکہ عوامی کی خودمختاری سے انکار اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
فروری کے انتخابات واضح مثال ہیں کہ کیسے جمہوریت پر ظاہری مفادات کو ترجیح دی گئی۔ حالانکہ ہر زاویے سے ہیرا پھیری نمایاں تھی لیکن آئین کے ذریعے جمہوریت کی ظاہری شکل کو برقرار رکھا گیا۔ ریاستی ادارے دوسروں سے آئین کے دائرے میں رہنے کا مطالبہ کیسے کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود اس کی دھجیاں اڑاتے ہیں؟
عدالتی فیصلوں کو نقصان پہنچانے اور عدالتوں میں اپنے منتخب کردہ ججز بھرتی کرنے کے مقصد سے اب پارلیمنٹ میں ترامیم لانے کی کوشش کی جاری ہیں۔ سپریم کورٹ انہیں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی قرار دے کر روک سکتی ہے لیکن اس سے ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان تعطل پیدا ہوگا۔ یہ بھی اچھی صورت حال نہیں ہوگی۔
اگر ہم ریاستی معاملات کی بحالی کی بات کرتے ہیں تو یہ دشمنی اور اختلافات کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں اسی پر چلتے ہوئے ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ آگے بڑھنے کا راستہ تصادم نہیں بلکہ تعاون کا ہونا چاہیے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھ کر ایک نیا کورس ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یونہی آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔
اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن سب سے پہلے شروعات کے لیے ہمیں قانونی ساکھ کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے نمائندگان کے انتخاب کے حق کو تسلیم کیا جائے اور ایک آزاد، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے فیصلہ کیا جائے کہ ان پر کون حکومت کرے۔ اسی کے ساتھ نتائج تسلیم بھی کیے جانے چاہئیں اور اقتدار کی پرامن منتقلی بھی ہونی چاہیے۔
ہر ریاست ان دو رکاوٹوں کو عبور کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ ہمیں اپنی اس ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی تجدید کا طویل عمل شروع کرنا ممکن ہوگا۔
یہ سچ ہے کہ عوام کی جانب سے سویلین اداروں کی حمایت کا تعلق براہ راست ان کی کارکردگی میں بہتری پر منحصر ہے۔ آج تک بنیادی طور پر سویلین ڈومین میں معاملات کا ریکارڈ متاثر کُن نہیں ہے۔ مثالوں میں ناقص گفت و شنید والے آئی پی پیز، تعلیم کی فراہمی کا ناقص معیار اور سرکاری اداروں کے بڑے پیمانے پر نقصانات شامل ہیں۔ لیکن شروعات کے لیے قانونی ساکھ کی بحالی کے بنیادی مسئلے کا تدراک کرنا ہوگا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔