ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مواقع پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ ہو براہراست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لیے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی، اب ایسا نہیں ہوتا، ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے اس لیے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کیس اس جج کے پاس لگے گا تو کسے فائدہ ہو سکتا ہے، ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلانے جج کے پاس لگ جائے، یہ بھی ختم ہوگیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے لیکن ان کو پتا کہ اس جج کا رجحان کس طرف ہے تو یہ سسٹم ہم نے ختم کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اب بینچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں ہے، دوسری چیز جو ختم ہوگئی وہ ماہانہ کاز لسٹ تھی، ایک دم سے کیس لگ جاتا تھا، مجھے اچانک بتایا جاتا تھا کہ کل کیس لگ گیا، اب رجسٹری میں کیس سننے کی سہولت موجود ہے، لیکن اب ماہانہ کاز لسٹ شروع ہوگئی ہے، اب وکیلوں کو پتا ہوتا کہے کہ مقدمہ کب لگے گا، ہم کوشش کریں گے کہ وکیلوں کی سہولت کے لیے ہر دو ہفتے بعد کاز لسٹ جاری کی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگ پراسیکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں، کچھ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ چیزیں دنیا کے ہر سسٹم میں موجود ہے، یہ چیزیں آپ تجربے سے سیکھتے ہیں، اگر سوچ سمجھ کے کیسز لگائے جائیں تو شفافیت نہیں ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا کیس فورا لگ جائے، قطاریں ہوتی ہیں، اگر کوئی فرد قطار میں لگا ہے تو اسے کوئی تکلیف نہیں ہے کہ اس کو نمبر دو سال بعد آئے یا تین سال بعد، اس کو تکلیف ہوتی ہے جب کوئی اچانک سے میرے سامنے آجائے قطار میں، کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے کہ وہ جلد سنیں جائیں تو ان کو ترجیح جاتی ہے، اس میں بچوں کی سر پرستی کے معاملات وغیرہ شامل ہیں ان میں ہوتا ہے کہ ان کو جلدی لگایا جائے۔
’تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں پر نہیں‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پہلے آئیں کا فارمولا استعمال ہوتا ہے، اب ہمیں سپریم کورٹ پروسیجر ایکٹ میں جو تقاضے ہوتے ہیں وہ پورے کرنے ہوتے ہیں، کچھ پرانے صحافی کہتے ہیں کہ چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا تو چیف جسٹس اب مقدمہ نہیں لگا سکتے، اب کمیٹی لگاتی ہے اور شفافیت کے لیے کمیٹی کے فیصلے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لگائے جاتے ہیں، ان کو خود پڑھا جاسکتا ہے، تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں پر نہیں، صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ سچ بولیں، میں جج کی حیثیت سے نہیں کہہ رہا یہ بات۔
انہوں نے کہا کہ پہلے میں نے فل کورٹ میٹنگ کی، فل کورٹ تشکیل دیا گیا، اگلا اقدام میرا کتنے ڈیپیوٹیشنسٹ یہاں بیٹھے تھے سپریم کورٹ میں ان کو میں نے رخصت کیا، ان کا قانون کہتا ہے ڈیپیوٹیشنسٹ تین سال کے لیے آسکتا ہے، اس میں ایک سال کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں، ان کت بیٹھے ہونے سے جو منفی نتیجہ نکلتا تھا وہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے ملازمین کی اپنی ترقی رک جاتی تھی، ان کے بعد 146 ملازمین کو ترقی ملی۔
چیف جسٹس کے مطابق ایک بات جس پر توجہ نہیں دی جاتی وہ یہ ہے کہ آپ اور ہم عوام کے لیے ہیں، عوام چاہتی ہے کہ ہمارے مقدمے جلد سے جلد تعین ہوں اور پیسے فضول خرچ نہ ہوں، یہ فضول خرچی بھی روکی گئی، یہ بات کہتے ہوئے شرمندگی بھی ہوتی ہے لیکن بتانا ضروری ہے کہ چیف جسٹس کے لیے 3000 سی سی کی مرسڈیذ بینز کی ضرورت نہیں میرے حساب سے، بلٹ پروف لینڈ کروزر کو بھی لوٹا دیا گیا اور حکومت سے درخواست کی کہ مناسب پوگا کہ انہیں بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدی جائیں، ہمیں ٹویوٹا چلانے میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ بھی کروڑوں کی گاڑیاں ہوتی ہے تو یہ چھوٹی باتیں ہیں اور ہم یہی کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیسے عوام کی امانت ہے اور ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم پیسے بچا سکتے ہیں یا نہیں، اٹارنی جنرل نے ذکر کیا مختلف عدالتوں کا، اس میں سول کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، ہائی کورٹس ہیں پھر ایک اور عدالتیں ہوتی ہیں وفاق کی جن میں کسٹم اپیلیٹ ٹریبونل، نیب کورٹ، سیلز ٹیکس اپیلٹ ٹریبونل، احتساب کورٹ وغیرہ شامل ہیں، صرف کراچی میں 36 ایسی وفاقی عدالتیں ہیں، نہ کوئی ان کی عمارتیں صحیح ہیں نہ ان کا ریکارڈ محفوظ ہیں، ایک دو ان میں سے سرکاری بلڈنگز میں ہیں لیکن باقی پرائیوٹ بلڈنگز میں موجود ہیں تو عوام پر ان کے کرائے وغیرہ دینے کا بھی بوجھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ بن رہا تھا کراچی میں جو ہائی کورٹ کے سامنے الیکشن کمیشن ہوتا تھا کراچی کے دل میں وہاں تقریبا 7 ایکڑ تھی زمین، یہ سپریم کورٹ کو دی گئی کہ یہاں رجسٹری بنائی جائے، میں نے سوچا کہ کراچی میں رجسٹری کی کیا ضرورت، اگر بینچ جاتی بھی ہے 2،4 دفعہ تو یہ پروجیکٹ تھا 6 ارب کا، یہ پروجیکٹ بلڈنگ کمیٹی جس کا میں ممبر ہوں تو اس میں فیصلہ ہوا کہ اسے سرکار کو واپس لوٹایا جائے اور اس شرط پر کہ جو 36 عدالتیں ہیں ان کو ایک جگہ منجمد کردیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پروجیکٹ کا آغاز تو ہوگیا تھا لیکن بیسمنٹ ہی بنا تھا اور اب اس کے پلان پر کام بھی کرنا ہوگا اور ہم جہاں کراچی میں تھے وہاں ہی کام کریں گے، ہمیں 6 ارب کی زمین کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ملازمین میں خوش ہوتے ہیں کچھ ناراض ہوتے ہیں، مجھ سے پہلے والے سال میں سپریم کورٹ ملازمین کو 3 مزیدگراس تنخواہیں دی گئیں، سپریم کورٹ ملازمین کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں سرکاری تنخواہوں سے، یہ ایک بڑی رقم تھی، میں نے اسے ایک بیسک سیلری کردی، اس سے جو پیسے بچے ہم نے کمپیوٹر خریدے، موٹر سائیکلز خریدیں رائیڈرز کے لیے، کوسٹرز خریدیں، بسیں خریدیں، الیکٹرک وہیکلز خریدیں، پھر 25 ہزار کا بونس سب کو دیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مزید یہ ہوا کہ پارلیمان نے ایک مفید اضافہ ہمارے آئین میں کیا، انہوں نے 19 الف کی شق ڈالی اور اس میں کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حق ہے شہری کا اور جتنا ہم کھولیں گے خود کو اتنا آپ ہم پر تنقید کرسکتے ہیں، اگر شخص تھے مختار احمد علی نے خط لکھا رجسٹرار سپریم کورٹ کو کہ کہ مجھے تفصیلات بتائی جائیں ملازمین وگیرہ کا، رجسٹرار نے اپیل دائر کی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ استثنیٰ حاصل ہے سپریم کورٹ کو ، سپریم کورٹ 19 اے کے ضمرے میں نہیں آتی، جب کیس ہمارے پاس آیا تو ہم نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ درست نہیں، یہ حقوق کا معاملہ ہے اور بنیادی حق کے راستے میں کچھ نہیں آتا، تو ہمیں جو استثنی دی تھی اسے ہٹایا اور جنہوں نے ہم سے تفصیلات مانگی تھیں ہم نے ان کو دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ تنقید کرنے والے بتادین کہ کیا دنیا میں ایسا فیصلہ کہیں ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو بتائیں اور اگر نہیں تو سر بلند کر کے بتائیں کہ آپ کی سپریم کورٹ نے بنیادی حقوق کو اہمیت دی، ہم سمجھتے ہیں کہ اہم لوگوں کے بنیادی حقوق ہی اہم ہیں لیکن سب کے بنیادی حقوق اہم ہوتے ہیں، تو یہ ہم نے کر دکھایا، اور کوئی بھی ہمیں خط لکھ سکتا ہے، مفروضوں پر نہ جائیں۔
’الیکشن کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا‘
انہوں نے بتایا کہ اب کچھ فیصلوں کی بات کرتے ہیں، جو ایک اہم فیصلہ تھا وہ انتخابات کا تھا، سب کو پتا ہے کہ نگران حکومت تھی اور الیکشن نہیں ہورہے تھے، الیکشن پٹیشن یہاں آئی، تین دن سنوائی ہوئی اور 12 دن میں فیصلہ ہوگیا، ہم نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، صدر مملکت کہہ رہے تھے کہ تاریخ دینے کا اختیار میرا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کہہ رہا تھا کہ تاریخ ہم دیں گے مگر کسی نے بھی تاریخ نہیں دی تھی، پھر یہ معاملہ آیا اور ہم نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ صدر کے پاس جائیں اور تاریخ لے کر آئیں، انہوں نے فروری کا فیصلہ کیا، ہم نے اسے آرڈر میں لکھا اور کہا کہ اب اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی گی۔
چیف جسٹس کے مطابق رکاوٹ ڈالنے والے رکاوٹ ڈھونڈ لیتے ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا کہ تمام پاکستان کے آر او اور ڈی آر اوز کو روک دیا گیا نا صرف پنجاب میں بلکہ پورے پاکستان میں اور انہوں نے کہا کہ یہ ریٹرننگ افسر نہیں ہوسکتے اور انہیں عدالت سے فراہم کیا جائے، الیکشن کمیشن لکھ چکی تھی ہائی کورٹس کے چیف کو کہ آپ ہمیں ریٹرننگ افسر دینا فرمائیں گے کیونکہ قانون یہی کہتا ہے تو کورٹس نے منع کردیا کہ ہم نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے پاس کیسز ہیں، قانون یہ کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص لوگ نہیں لگائے جہاں ڈی سی تھا اسی کو لگا دیا تو سپریم کورٹ نے اسے سراہا اور اس فیصلے کو ہٹایا راستے سے، الیکشن جمہوریت کے ساتھ منسلک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فاروق ایچ نائیک نے منیر بھٹی کیس کی بات کی، اس فیصلے میں میں اقلیت میں تھا، میں اس کیس کی آرا سے اتفاق نہیں کرتا تھا، ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 184 -3 کا جو استعمال کیا جارہا ہے ازخود نوٹس کا یہ کسی پیمانے کے تحت ہونا چاہیے اور میں اس بات پر متفق ہوں کیونکہ آئین بھی یہی کہتا ہے، آئین ازخود معاملے پر کہتا ہے کہ یا تو وہ بہت اہم ہو عوام کے لیے اور دوسرا یہ ہو کہ اس کا تعقلق بنیادی حقوق کے نفاذ پر، توہین کا بھی کہا گیا تو میں نے اپنی ذات کے حوالے سے بھی توہین کا نوٹس نہیں لیا، بس ایک دفعہ میں نے توہین کا نوٹس لیا اور جنہوں نے کیا تھا انہوں نے بھی معذرت کرلی، یہ بس ایک دفعہ ہوا ہے مگر اس کا مطلب نہیں کہ آپ معاشرے میں گالی گلوچ شروع کردیں۔
’پارلیمان قانون بناتا ہے اور ہمارا کام قانون کی تشریح کرنا ہے‘
انہوں نے بتایا کہ تنقید کریں مگر گالی گلوچ نہ کریں، ہمیں آزادی رائے پر پورا یقین ہے اور ہم نے اس پر قدغن نہیں لگائی، پارلیمان قانون بناتا ہے اور ہمارا کام قانون کی تشریح کرنا ہے، اور اگر سمجھیں کہ قانون آئین کے برعکس ہے تو اسے روک دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس مظاہر علی نقوی کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں سے شفافیت اور احتساب مانگیں اور خود کا نہ کریں تو بات کی وزن نہیں ہوتی اور فیصلوں کی اہمیت بھی نہیں ہوتی، ہمارے جج پر الزام لگائے گئے، جوڈیشل کونسل نے کارروائی کی اور ان کو برطرف کیا گیا، ہم نے کیس کھلی عدالت میں چلایا اور سپریم کورٹ کے جج کو بد انتظامی پر برطرف کیا گیا پہلی دفعہ پاکستان میں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غلطی بھی ہوتی ہے، اور اس عدالت نے بھی غلطیاں کی ہیں، جب تک ہم اس کا اعتراف نہیں کریں گے درست سمت کی طرف نہیں جاسکیں گے، زوالفقار علی بھٹو کا مشہور کیس تھا انہیں سزائے موت دی گئی لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور نظر ثانی اپیل خارج کردی بھٹو کی، پھر اس وقت کے صدر پاکستان جو آج بھی صدر مملکت ہیں نے ایک ریفرنس بھیجی اور تقاضا کیا کہ اس فیصلے کی درستگی کی ضرورت ہے، ہم نے کیس سنا، اور فیصلہ ہوا کہ کیس کو غیر منصفانہ طرز پر نہیں چلایا گیا، یہ ہماری رائے تھی، اس عدالت نے اعتراف کیا، اسی طرح ایک جج کو برطرف کیا گیا تھا غلط طریقے سے تو ہم انہیں بحال نہیں کرسکے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کو نکالے گئے جج نہیں بلکہ ریٹائرڈ جج کی طرح لکھنے کا حکم دیا۔
مزید بتایا کہ ایک آئینی کی شق ہے غداری پر، ایک مقدمہ چلا تھا آئین شکن پر، جنرل مشرف پر ٹریبونل بنا، لاہور ہائی کورٹ نے کہا یہ سزا تریبونل نہین دے سکات تھا جبکہ ہائی کورٹ کے پاس ایسا اختیار نہیں تھا کیونکہ اس کی اپیل سپریم کورٹ میں کی جاتی ہے تو ہم نے اس فیسلے کو کالعدم قرار دیا اور آئین شکن کو قصور وار ٹھہرایا، کراچی میں نسلہ والوں کو معاوضہ دلوایا اور تجاوزات کو ہٹانے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے سامنے سڑک پر بیرئیرز رکھے گئے تھے ہم نے وہ ہٹوا دیے، اور دوسروں کو حکم دیا کہ وہ بھی اس کے تابع ہیں کہ وہ ہٹائیں ورنہ جو اس ادارے کا سربراہ ہوگا وہ ذمہ دار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ مارگلہ پہاڑی کا کیس بھی بہت اہم تھا، کچھ کیسز بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں، چیف جسٹس کے گھر میں مور رکھے گئے تھے پنجروں میں تو چیف جسٹس کے گھر میں موروں کا کیا کام؟ ان کی رہائی کروائی گئی، موروں کو جنگلوں میں ناچنے دیں، ہم نے وفاقی جوڈیشل اکیڈمی کو مؤثر بنایا، اسے فعال ادارہ بنایا۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ قانون کے مطابق 17 ججز پر مشتمل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کئی سالوٓں سے مکمل نہیں تھا تو جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ججز کی تعداد پوری کی گئی، ہم نے ایڈہاک ججز لیے، اس میں ہمارے بااعتماد ججز تھے، ہم پر جائز تنقید ہے کہ جو چیزیں نمٹائے گئے وہ 15 ہزار 660 کیسز ہیں، یہ ایک بڑا نمبر ہے لیکن یہ ایک اچھی بات نہیں، یہ 44 کیسز بنتے ہیں ایک دن کے، اس میں چھٹیاں شامل نہیں ہیں، اگر چھٹیاں لکالیں تو نمبر بڑھے گا اور ہماری کوشش ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ کیسز نمٹائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اور ادارہ ہے شریعت اپیلیٹ بینچ، اس میں دو عالم جج کا ہونا شامل ہے، ہمارے پاس ایک ہی جج رہ گئے تھے تو ایک جج ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کو تعینات کیا گیا اور یہ ادارہ 4 سال بعد فعال ہوگیا، یہ ججز بھی دانشور ہیں، انہوں نے بھی چھٹیوں میں کام کیا۔
’ذاتی نوعیت کے الزام میں جج کو اجازت دی گئی کہ وہ اس کا جواب دے سکیں‘
چیف جسٹس نے کہا کہ روزانہ ججز پر جھوٹے اور سچے الزام لگا دیے جاتے ہیں اور جج پہلے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے تو ہم نے جوڈیشل کونسل کے اکوڈ آف کندکٹ کے آرٹیکل میں ترمیم کی اور کہا کہ الزام لگایا جائے اگر ذاتی نوعیت کا تو جج کو اجازت دی گئی کہ وہ اس کا جواب دے سکیں، وکیلوں کے نمائندوں سے ہماری میٹنگ ہوئی، انہوں نے مشورے دیے، سپریم کورٹ پریس ایسو سیایشن سے بھی ملاقات ہوئی اور کہا گیا کہ تنقید کریں پر جھوٹی خبر نہ چلائیں، ہم مان لیتے ہیں جب غلطی کرتے ہیں مگر کچھ لوگ نہیں مانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے موس گرما کی چھٹی میں ایک ماہ کم کردیا اور چھٹیوں میں بھی کیس چلائے گئے اور کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کی کسی بینچ نے کام نہیں کیا ہو، بہت سے کام لیکن ابھی بھی ہونے باقی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ہر چیز ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ہے، ہم اس رپورٹ میں اپنی کارکردگی بتاتے ہیں۔