اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کی نیت پر سوال اٹھا دیے
بین الاقوامی قرض دہندہ کے معاملات میں تجربہ کار سمجھے جانے والے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ عالمی ادارے نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو حکومت سنبھالنے کے بعد فنڈز کے اجرا میں جان بوجھ کر تاخیر کی، جس کے باعث متعدد لوگوں نے قیاس آرائیاں کیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وسطی لندن کے ضلع جنوبی کنسنگٹن کے ملینیئم گلوکیسٹر ہوٹل میں سمندر پار پاکستانی فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقد کی گئی 6 ستمبر کے حوالے سے تقریب سے خطاب میں وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ اہم مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
وزیر خزانہ نے سوال اٹھایا کہ ’جب پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تو اس وقت جغرافیائی سیاست جاری تھی، میں انگلی کیوں نہ اٹھاؤں جب ہمارا تکنیکی جائزہ مکمل ہو چکا ہے، (وہ کیوں) ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں؟‘
نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے کہا میں گزشتہ حکومت میں 11 ماہ تک رہا، جائزے مسلسل جاری رہے، میری رائے یہ ہے کہ وہ چاہتے تھے پاکستان دیوالیہ ہوجائے، ہم ایک جوہری ریاست ہیں ہمارے سیاستدانوں کو اس سے محتاط رہنا چاہیے، جب بھی ہم معاشی کامیابی کی طرف بڑھتے ہیں تو ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں، روایتی جنگیں ختم ہوچکی ہیں، (فنڈز کا اجرا) 8 ماہ تک تاخیر کا شکار رہا، اور یہ کسی ملک کی معاشی زندگی میں ایک بڑا جرم ہے۔
اگرچہ انہوں نے واضح طور پر اس کا ذکر نہیں کیا، تاہم جس دور کا حوالہ نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار دے رہے تھے، اُس وقت وہ ملک کے وزیر خزانہ نہیں تھے، پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران یہ ذمہ داری مفتاح اسمعٰیل کے پاس تھی۔
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اپنی سفارتی مصروفیات کا اختتام ہیمپسٹڈ میں واقع پاکستان ہاؤس میں منعقدہ ایک عشائیے کے ساتھ کیا، جہاں پاکستانی نژاد برطانوی اراکین پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔
پاکستانی ہائی کمشنر محمد فیصل کی جانب سے تقریب کا انعقاد کیا گیا، جہاں نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا، جن میں ڈپٹی اسپیکر ہاؤس آف کامنز نصرت غنی اور پاکستانی نژاد کے کئی دیگر معروف اراکین پارلیمنٹ شامل تھے۔
تقریب سے خطاب کے دوران نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے حالیہ انتخابات میں 15 پاکستانی نژاد برطانوی اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کی تعریف کی اور اسے برطانوی جمہوریت کی مضبوطی اور برطانیہ میں پاکستانی نژاد شہریوں کی کامیابی کا ثبوت قرار دیا۔
انہوں نے اپنی حکومت کے تحت پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالی اور 2013 سے 2017 کے نواز شریف کے دورِ حکومت میں ملک کی ترقی کی رفتار کا ذکر کیا، ان کے بقول پاکستان دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن گیا تھا۔
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے 2018 کے بعد سیاسی عدم استحکام کے اثرات پر تشویش ظاہر کی، تاہم انہوں نے حکومت کے عزم کو دہراتے ہوئے اقتصادی نمو کی بحالی، مہنگائی پر قابو پانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اسحٰق ڈار نے اراکین پارلیمنٹ کو ان اصلاحات کے بارے میں جو مثبت نتائج دینا شروع ہوگئی ہیں، بالخصوص پاکستان کی کرنسی کو مستحکم کرنے اور توانائی اور زراعت جیسے کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے حوالے سے آگاہ کیا۔
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے برطانوی اور پاکستانی تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تجاویز طلب کیں اور پاکستانی نژاد برطانوی نوجوانوں کو نئے ویزا فری پالیسی جو کہ غیر ملکی پاکستانیوں کے لیے متعارف کی گئی ہے، کے ذریعے اپنی وراثت سے جڑے رہنے کی ترغیب بھی دی۔
6 ستمبر کی تقریب کے موقع پر اسحٰق ڈار نے برطانوی پارلیمنٹرینز کی تعریف کی جبکہ حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان کے سیاسی نمائندوں کو کب بالغوں کی طرح برتاؤ کرنے کی تربیت دی جا سکے گی۔
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے حاضرین سے کہا کہ برطانیہ کی سیاست پر نظر ڈالیں وہاں اوپر ایوان میں سیاسی وجوہات کی بنا پر لڑائی ہوتی ہے، پالیسیوں اور عوامی مسائل پر بات چیت ہوتی ہے، لیکن جب باہر آتے ہیں، تو ایک ساتھ چائے اور کافی پی سکتے ہیں، مجھے نہیں معلوم ہم کب خود کو تربیت دے سکیں گے اور سیاسی زندگی میں بالغ بن سکیں گے اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں گے۔
اپنی تقریر کے دوران اسحٰق ڈار نے پاکستان کے فوجی اہلکاروں کی قربانیوں کی ستائش کی اور کہا کہ ان کی جماعت نواز شریف کی رہنمائی میں مالی اثرات کے باوجود آپریشن ضرب عضب کی حمایت کر رہی تھی۔
اسی تقریب میں نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے سابق وزیراعظم عمران خان پر ’خفیہ سفارتی پیغام رسانی کو ہتھیار بنانے‘ کا الزام لگایا، انہوں نے کہا کہ یہ ’صرف عہدے کی خلاف ورزی نہیں تھی بلکہ (انہوں نے) پاکستان کے خارجی تعلقات کو بھی خطرے میں ڈال دیا‘۔
انہوں نے بانی پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنی برطرفی کا الزام فوج پر لگایا حالانکہ ان کی برطرفی پارلیمانی جمہوریتوں میں عام طور پر استعمال ہونے والے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہوئی تھی۔