پاکستان معاشی تباہی کے گہرے گڑھے میں گر رہا ہے، عاطف میاں
پاکستان کے اقتصادی بحران کا سنجیدہ تجزیہ کرتے ہوئے ماہر معیشت عاطف میاں نے خبر دار کیا ہے کہ ملک متعدد چیلنجز کے پیچیدہ جال کے باعث سنگین ترین مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد امریکی اسکالر عاطف میاں نے ملک کو اقتصادی بحران میں دھکیلنے والے کلیدی عوامل کے طور پر بڑھتے ہوئے داخلی اور خارجی قرضوں، ناقابل برداشت پنشن کے قرضوں اور ناکام توانائی کے شعبے کو وجوہات قرار دیا ہے، ان کی تشخیص ایک اداس تصویر پیش کرتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات اپنی نوعیت میں بے حد شدید ہیں، اور عالمی سطح پر مالیاتی بدانتظامی کی ایک واضح مثال کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
ایکس اکاؤنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان نژاد اسکالر عاطف میاں نے لکھا ’پاکستان کے داخلی اور خارجی قرضے، اس کی غیر فنڈڈ پنشن کی واجبات، اور زومبی پاور سیکٹر نے پاکستان کو گہرے مالی بحران میں دھکیل دیا ہے ،دوسرے کسی ملک کی ایسی بدترین حالت کا تصور کرنا مشکل ہے‘۔
عاطف میاں کے تجزیے پر ردعمل دیتے ہوئے چیس مین ہیٹن بینک کے سابق سربراہ خزانہ اسد رضوی نے مطالبہ کیا کہ وہ ان چیلنجز سے نمٹنے اور معیشت کو درست سمت میں واپس لانے کے لیے حکمت عملی پیش کریں، اسد رضوی نے میاں عاطف سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ معیشتیں جو زیادہ قرضہ جی ڈی پی تناسب کے ساتھ ہیں، اپنی صورتحال کو کس طرح سنبھالتی ہیں۔
اسد رضوی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک اہم مسائل جیسے کہ ٹیکس-جی ڈی پی تناسب (معیشت کی دستاویزی صورت)، بینک قرضوں کا جمع شدہ رقوم کا تناسب، اور اوپن مارکیٹ آپریشنز (او ایم او) کی انجیكشنز، جو فی الحال 11.974 ٹریلین روپے پر ہیں، کو حل نہیں کیا جاتا، معیشت کی بحالی مشکل ہوگی، انہوں نے گردش میں موجود کرنسی (سی آئی سی) جو کہ 91.2 کھرب روپے ہے، کو مستحکم کرنے اور 25 کھرب روپے کے سرکلر قرضے کو حل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ایک اور مبصر نے یہ نکتہ اٹھایا کہ پاکستان بھاری حد تک خارجی خیرخواہوں کی سخاوت پر انحصار کرتا ہے اور معیشت کو بحال کرنے کے لیے ضروری مشکل فیصلے کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔
اس پر عاطف میاں نے ڈان کو بتایا کہ ترقی یافتہ معیشتوں جیسے کہ امریکا اور جاپان کی قرضہ-جی ڈی پی مسائل بنیادی طور پر پاکستان کے درپیش مسائل سے مختلف ہیں۔
وضاحت کرتے ہوئے عاطف میاں کا کہنا تھا کہ یہ ممالک ایسے ہیں جن کی افراط زر مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے، جن کی طویل تاریخ قابلِ اعتماد مالیاتی پالیسی کی ہے (اور اس کے نتیجے میں کرنسی کی طاقت)، طویل مدت میں مضبوط معیشت (پروڈکٹوٹی کی ترقی کے لحاظ سے) اور ایک اچھی طرح سے منظم ٹیکس کا نظام ہے، یہ تمام عوامل ان ممالک کو بہت زیادہ مالیاتی خلا فراہم کرتے ہیں اور نتیجتاً، مارکیٹس ان ممالک کے ساتھ بہت زیادہ معاف کرنے والی ہوتی ہیں۔
میاں عاطف نے سابق فرانسیسی صدر چارلس ڈی گول کے ایک بیان کا حوالہ دیا جو انہوں نے 1960 میں دیا تھا، سابق فرانسیسی صدر نے امریکا کو ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر حاصل شدہ فوائد پر تنقید کی تھی، چارلس ڈی گول نے اس صورتحال کو ’غیر معمولی اعزاز‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس حیثیت کی وجہ سے امریکا تجارتی خسارے چلا سکتا ہے اور کم خرچ پر قرض لے سکتا ہے، جس سےدوسرے ممالک پر غیر منصفانہ اقتصادی بوجھ پڑتا ہے۔
عاطف میاں سمیت دیگر بین الاقوامی ماہرین نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو ایک تاریک مستقبل کا سامنا ہے، کیونکہ اس کی معیشت ایک خطرناک حال میں ہے، انہوں نے پاکستانی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ ان انتباہی اشاروں کو نظرانداز نہ کرے اور صحیح وقت پر درست اقدامات کرے، تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ پاکستان کی قیادت قوم کی معیشتی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے زیادہ تر داخلی سیاست میں مشغول ہے۔
تجزیہ کاروں نے بحران کو برقرار رکھنے والی تین اہم ”قرض کے دائروں“ کی نشاندہی کی ہے، پہلا دائرہ مالیاتی دائرہ ہے، جہاں حکومت قرضوں کے سود اور غیر فنڈڈ پنشنز کی ادائیگی میں مشکلات کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ملک کو اپنے واجبات، بشمول شہری اور فوجی اخراجات پورا کرنے کے لیے مسلسل قرضے لینا پڑتے ہیں۔
دوسرا دائرہ خارجی دائرہ ہے، جو قومی تجارت کو مفلوج کر رہا ہے، پاکستان ہر ایک ڈالر کی برآمدات کے بدلے دو ڈالر کی درآمدات کرتا ہے اور ترسیلاتِ زر پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کی وجہ سے پائیدار ترقی کے لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔
تیسرا اور سب سے خطرناک دائرہ اعتماد کی کمزوری ہے، جیسے جیسے مایوسی بڑھتی ہے، امید افزا نوجوان ملک میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، جو سرمایہ کاری کو روک دیتا ہے اور پہلے سے ہی سنگین مالی اور مالیاتی صورت حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔
یہ حرکیات پاکستان کو گہری مایوسی کی طرف دھکیل رہی ہیں، عوام کی ناراضگی سیاسی عدم استحکام میں ظاہر ہو رہی ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی موجودہ مقبولیت ان کی پالیسیوں کی بجائے عوام کی مایوسی کا مظہر ہے، چاہے کوئی بھی اقتدار میں ہو، ملک کا سیاسی منظرنامہ ان حالات میں غیر مستحکم رہے گا۔
ایک تبصرہ نگار نے کہا ’فوج کے پاس فوری طاقت ہے، لیکن وہ ریت کو دبا رہے ہیں، جتنا زیادہ دباتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ریت سرک جاتی ہے، ملک سرک رہا ہے‘۔
حل کے مطالبات کے حوالے سے ردعمل میں عاطف میاں سمیت دیگر نے نشاندہی کی کہ اگرچہ حکمت عملی موجود ہیں، پاکستان کی قیادت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینے کی خواہش پر سوال اٹھتا ہے، ایک تجزیہ کار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کبھی ایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو نہیں دیکھا جو دوسروں کی اتنی کم پرواہ کرتے ہوں اور خود کی اتنی زیادہ فکر کرتے ہوں۔