• KHI: Maghrib 5:53pm Isha 7:15pm
  • LHR: Maghrib 5:09pm Isha 6:36pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:38pm
  • KHI: Maghrib 5:53pm Isha 7:15pm
  • LHR: Maghrib 5:09pm Isha 6:36pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:38pm

گھر میں ویگو ڈالے آگئے، بندہ اٹھا لیا مگر ایس ایچ او سمیت کسی کو پتا ہی نہیں، جسٹس بابر ستار

شائع September 4, 2024
جسٹس بابر ستار— فائل  فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس بابر ستار— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا عثمان فیضان کی بازیابی کیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کو حساس ادارے سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا ہے، دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ گھر میں ویگو ڈالے آ گئے، بندہ اٹھا لیا مگر اسٹیشن ہاؤس افسر ( ایس ایچ او) سمیت کسی کو پتا ہی نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے شہر اقتدار سے لاپتا نوجوان فیضان عثمان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالتی حکم پر عدالت میں پیش ہوئے، درخواست گزار کی جانب سے ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ جبکہ وفاق سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر آئی جی اسلام آباد نے مؤ قف اپنایا کہ میں نے لاپتا فیضان کے والد کے ساتھ آدھا گھنٹہ گزارا، فیضان کی لوکیشن پہلے اسلام آباد اور 17 اگست کو لاہور کی آئی، ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں، ایک فوٹیج میں کچھ لوگوں کے چہروں پر ماسک ہیں، دوسری فوٹیج میں نظر آنے والے لوگوں کے چہرے واضح نہیں ہیں، تاہم گاڑیاں واضح نظر آ رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع کو گاڑیوں سے متعلق معلومات کے لیے لکھا ہے، سیف سٹی کا ریکارڈ ایک ماہ کا ہوتا ہے، اس واقعے کو دو ماہ ہو چکے، ہمیں جائے وقوعہ کے پاس فیکٹریوں کو چیک کرنا پڑے گا اگر وہاں کہیں سے فوٹیج مل جائے تو۔

آئی جی اسلام آباد نے مزید بتایا کہ عثمان کے والد نے کہا ہے کہ ان کے داماد 3 جولائی سے لاہور سے لاپتا ہیں مگر وہاں کوئی ایف آئی آر نہیں ہے، واٹس ایپ ٹریکنگ کے لیے ہم نے ایف آئی اے، پی ٹی اے اور سی ٹی ڈی لاہور کو لکھا ہے۔

اس موقع پر عدالت نے آئی جی استفسار کیا کہ الزام حساس ادارے پر ہے، تو کیا آپ نے وہاں سے کچھ پوچھا؟ آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ ہم نے وزارتِ دفاع سے رابطہ کیا ہے۔

عدالت مزید نے ریمارکس دیے کہ حساس ادارے سے رابطہ کریں، وہ وزارتِ دفاع کے نہیں بلکہ براہ راست وزیراعظم کے ماتحت ہیں، ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ بغیر کسی خوف کے جاری ہے، شہریوں کا تحفظ پولیس کی ذمہ داری ہے، اگر آپ ناکام ہوں گے تو شہری عدالتوں کے پاس آئیں گے۔

جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ گھر میں ویگو ڈالے آ گئے، بندہ اٹھا لیا، ایس ایچ او سمیت کسی کو پتا ہی نہیں، ہم سب کو پتا ہے کہ یہ سب کس طرح سے ہوتا ہے، میں آپ کو پیر تک کا وقت دیتا ہوں، آئندہ سماعت پر حتمی رپورٹ کے ساتھ پیش ہوں۔

اس پر آئی جی اسلام آباد نے استدعا کی کہ پیر کے بجائے منگل تک کا وقت دے دیا جائے، عدالت نے کہا ٹھیک ہے، اگر پولیس کو کسی سے بھی معاونت کی ضرورت ہو تو لے سکتی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو مغوی عثمان فیضان کا فون نمبر اور گاڑی ٹریس کرنے کی ہدایت دی تھی۔

دوران سماعت درخواست گزار نے بتایا کہ میرے گھر کے باہر گاڑیوں میں لوگ آئے تھے، گھر میں گھس کر تلاشی لی گئی، میں نے وردی والے افراد سے کہا کہ میں پاکستان کی خدمت کررہا ہوں، آپ میرے گھر کیوں آئے؟ میرے ساتھ میرے گھر سے نکل کر میرے انسٹی ٹیوٹ میں گئے وہاں بیٹھ گئے، انسٹیٹیوٹ میں بیٹھ کر انہوں نے کیمرہ بند کرنے کا کہا۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے ان سے پوچھا نہیں کہ آپ کس ادارے سے منسلک ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے سوال پر بتایا گیا کہ آپ وہ رہنے دیں کہ ہم کہاں سے ہے، مجھے کہا گیا کہ آپ کا بیٹا آپ کے عزیز سے رابطے ہے جو مبینہ کالعدم تنظیم سے منسلک ہے۔

عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کا وہ عزیز کون ہے جس کے ساتھ رابطے میں آپ کے بیٹے کو اٹھایا گیا؟ درخواستگزار نے جواب دیا کہ میرا داماد ہے جو لاہور میں رہتا ہے، ان سے رابطے کے الزام میں میرے بیٹے کو لے کر گئے ہیں، پہلے دن آئے تو میرے بیٹے سے جہاد بارے میں پوچھا گیا، میرے بیٹے نے ان سے کہا کہ میں اسٹوڈنٹ ہوں، جہاد میرا کام نہیں آرمی اور حکومت کا کام ہے، میرے بچے کو اٹھانے کے بعد مجھے کہا گیا کہ اگر آپ قانون کے طرف گئے یا میڈیا میں گئے تو آپ کے بچے کی خیر نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 30 دسمبر 2024
کارٹون : 29 دسمبر 2024