دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہیں گے، امریکا
امریکا نے گزشتہ ماہ بلوچستان میں سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں پر ہونے والے مہلک حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے روز دے کر کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہے گا۔
پاکستان نے معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے امریکا سے مدد طلب کی ہے، یہ مدد کی درخواست گزشتہ روز امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کی گئی۔
دونوں شخصیات کے درمیان یہ ملاقات گزشتہ ماہ بلوچستان میں دہشت گردی کے مخلتف حملوں میں 70 سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد ہوئی، دہشت گردی کے ان واقعات میں موسی خیل کا واقعہ بھی شامل ہے جہاں مسلح افراد نے مسافروں کو بسوں اور ٹرکوں سے اتارا اور شناخت دیکھنے کے بعد ان پر گولیاں چلائیں۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ڈیلی نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان میتھیو ملر سے پاکستان کی جانب سے مدد کی درخواست کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے کہا علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں امریکا اور پاکستان مشترکہ مفاد رکھتے ہیں اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہیں گے۔
میتھیو ملر نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام نے انتہا پسند دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور ہمارے جذبات مارے جانے والوں کے خاندانوں اور پیاروں کے ساتھ ہیں۔
واضح رہے کہ 26 اگست کو بلوچستان میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 50 افراد کو قتل کردیا تھا جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات میں نامعلوم مسلح افراد نے مستونگ، قلات، پسنی اور سنتسر میں لیویز اور پولیس تھانوں پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات ہوئیں۔
سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ اور کوئٹہ میں دھماکوں اور دستی بم حملوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، حکام نے تصدیق کی کہ حملہ آوروں نے مستونگ کے بائی پاس علاقے کے قریب پاکستان اور ایران کو ملانے والے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔
پاکستان میں توانائی کی قلت کا خاتمہ امریکا کی ترجیح ہے
گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں ایران کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے حتمی نوٹس اور 18 ارب ڈالر کے بھاری جرمانے کی دھمکی سے متعلق سوال کے جواب میں میتھیو ملر نے کہا کہ امریکا ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا اور کسی کو بھی ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بارے میں سوچنے کے خلاف نصیحت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اور یقیناً ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے ہر کسی کو اس کے ممکنہ منفی نتائج سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
پاکستان کے توانائی کے بحران کے بارے میں میتھیو ملر نے کہا کہ ملک میں توانائی کی قلت کے خاتمے میں مدد کرنا ترجیح ہے اور وہ وفاقی حکومت کے ساتھ توانائی کے تحفظ سے متعلق بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ گیس پائپ لائن سے متعلق ایران نے پاکستان کے خلاف ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا، ایران نے پاکستان کو آخری نوٹس جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ستمبر میں پائپ لائن سے متعلق پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ ہے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ ایران کے پاکستان کے خلاف ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کے معاملے پر پاکستان اور ایران سفارتی سطح پر رابطے میں ہیں، ثالثی میں پاکستان کا کیس مضبوط ہے، تاہم نوٹس کےمندرجات کو معاہدے کی پابندی کی وجہ سے خفیہ رکھا گیا ہے، جو بھی معاملات ہیں ان کوسفارتی سطح پر دیکھا جارہا ہے۔
11 مارچ 2013 کو امریکا کی شدید مخالفت اور ممکنہ پابندیوں کی دھمکی کے باوجود آصف زرداری اور ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے دونوں ملکوں کے درمیان گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے کی تعمیر کا افتتاح کردیا گیا تھا۔
24 جنوری 2020 کو ایوان بالا (سینیٹ) میں وزارت توانائی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان-ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے رک گیا ہے۔
18 مئی 2023 کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل نہ کیا تو پاکستان کو 18 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
7 اگست 2023 کو پاکستان نے ایران کو اربوں ڈالر کے ایران-پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل سے متعلق معاہدے کے تحت طے شدہ ذمہ داری کو معطل کرنے کے لیے ’فورس میجر اینڈ ایکسکیوزنگ ایونٹ‘ نوٹس جاری کیا تھا جس میں پاکستان کے قابو سے باہر بیرونی عوامل کا حوالہ دیا گیا۔
سادھے الفاظ میں پاکستان نے اس وقت تک منصوبہ آگے بڑھانے سے اپنی معذوری ظاہر کی ہے جب تک کہ ایران پر امریکی پابندیاں برقرار ہیں یا امریکا کی جانب سے اسلام آباد کو منصوبے پر آگے بڑھنے کے لیے کوئی مثبت اشارہ دیا جائے۔
یہ منصوبہ 24 کروڑ عوام کے جنوبی ایشیائی ملک میں توانائی کی شدید قلت کے باوجود تقریباً ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہے۔
23 فروری 2024 کو کابینہ کی توانائی کمیٹی نے پاک ۔ ایران گیس پائپ منصوبے کے تحت 80 کلومیٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان 2009 میں معاہدہ طے پایا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پاکستان کو فراہم کی جائے گی۔
منصوبے کے تحت 1931 کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس میں 1150 کلومیٹر ایران اور 781 کلومیٹر پاکستان کے اندر ہوگی۔
منصوبے کے تحت پاکستان کو جنوری 2015 میں گیس کی سپلائی ہونی تھی تاہم اب تک منصوبہ مکمل نہ کیا جاسکا اور کب تک مکمل ہوگا اب تک یہ بھی واضح نہیں ہے۔
ایران منصوبے کے تحت پہلے ہی 900 کلومیٹر پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے، تاہم ایران کی جانب سے 250 کلومیٹر پائپ لائن کی تعمیر ہونا اب بھی باقی ہے۔
21 مارچ 2024 کو جنوبی اور وسط ایشیا کے امور کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے کہا تھا کہ امریکا ایران-پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن منصوبے کو روکنے کے مقصد پر کام کر رہا ہے۔