• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

کراچی پولیس نے 2017 کے کیس میں یونیورسٹی پروفیسر کو حراست میں لینے کا اعتراف کرلیا

شائع September 2, 2024
ڈاکٹر ریاض احمد — فائل فوٹو: ڈان نیوز
ڈاکٹر ریاض احمد — فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی پولیس نے کراچی یونیورسٹی (کے یو) کے پروفیسر اور سنڈیکیٹ کے رکن ڈاکٹر ریاض احمد کو 2017 کے ایک مقدمے میں گرفتار کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اس مقدمے میں بری ہو گئے تو انہیں چھوڑ دیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو گرفتاری سے رہائی کے بعد ڈاکٹر ریاض احمد نے الزام لگایا تھا کہ انہیں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے اغوا کیا گیا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کی ڈگری کے معاملے کا فیصلہ ہونا تھا۔

انہیں پولیس نے اساتذہ، طلبا اور حقوق کے کارکنوں کے مظاہروں کے بعد رہا کیا جنہوں نے بہادر آباد پولیس اسٹیشن کے باہر ان کی 8 گھنٹے کی حراست کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

پولیس کے ترجمان سید عمیر شاہ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کی گئی کہ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمسٹری میں پڑھانے والے پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو بہادر آباد پولیس نے بغیر کسی جواز کے حراست میں لیا اور بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔

پولیس نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ گرفتاری کے پیچھے کچھ پوشیدہ اور پیچیدہ وجوہات تھیں۔

اس کی تصدیق کے لیے بہادر آباد پولیس سے معلومات طلب کی گئی لیکن اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) محمد نعیم راجپوت نے واضح کیا کہ یہ ایک معمول کا معاملہ تھا۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ ریاض نامی ایک مفرور، جو آرٹلری میدان تھانے کو ایف آئی آر 35/2017 میں مطلوب ہے، بہادر آباد پولیس کے دائرہ اختیار میں موجود ہے۔

اس لیے پولیس نے ڈاکٹر ریاض احمد کو حراست میں لے لیا جہاں انہوں نے واضح کیا کہ وہ جامعہ کراچی میں پروفیسر ہیں اور انہیں ان کے خلاف مقدمے میں بری کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس معاملے کے پیچھے کوئی پوشیدہ پہلو نہیں تھا۔

اس دوران ڈاکٹر ریاض احمد نے پولیس کے بیان سے اختلاف کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ انہیں کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میٹنگ میں شرکت سے روکنے کے لیے اغوا کیا گیا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کی ڈگری کے معاملے پر بات ہونی تھی۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر زور دیا کہ وہ نوٹس لیں، یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے انکوائری باڈی کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا اور الزام لگایا کہ یہ یک طرفہ انکوائری کر رہی ہے۔

پروفیسر نے کہا کہ میٹنگ نے ایک ان فیئر مینز کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دی جو سنڈیکیٹ کے ذریعے نہیں بنائی گئی، ڈاکٹر ریاض نے اسے کراچی یونیورسٹی کے قوانین کے خلاف بھی قرار دے دیا۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024