افغان طالبان کے نئے قوانین: ’پاکستان ہمارا پہلا دشمن ہے، اب اس کی باری ہے۔۔۔‘
ایک صدی قبل بادشاہ اور ان کی فیمنسٹ ملکہ نے افغانستان کو جدید ریاست بنانے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی بلکہ اب جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے وہ ان کی کوششوں کے بالکل متضاد ہے۔
قرونِ وسطیٰ کی جانب جھکاؤ رکھنے والے موجودہ حکمرانوں کی جانب سے گزشتہ ہفتے کیا گیا فیصلہ عقیدے پر مبنی قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ ظلم پر مبنی ’اخلاقی قانون‘ ہے جس نے ان کی دقیانوسی سوچ کی عکاسی کی۔
امیر امان اللہ نے 1919ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ میں کلیدی کامیابی حاصل کرکے کابل کا تخت سنبھالا تھا (اس کامیابی سے اسی سال اگست میں راولپنڈی میں امن معاہدہ ہوا اور افغان خارجہ معاملات میں برطانیہ کے اثرورسوخ کو ختم کردیا گیا اور ڈیورنڈ لائن قائم کی گئی)۔
امیر امان اللہ اور ان کی ملکہ ثریا نے ایک اصلاحاتی پروگرام شروع کیا جس نے تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم سمیت مختلف شعبہ زندگی پر توجہ دی۔ انہوں نے لینڈ ریفارمز، خواتین کے پردے اور مردوں کے داڑھی رکھنے کی پابندیوں کو بھی نرم کیا۔
گزشتہ ہفتے طالبان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر باقاعدہ پابندی کا اعلان کیا اور ان کے باہر نکلنے پر بھی پابندیاں نافذ کیں کہ وہ باہر نظر نہ آئیں اور ان کی آوازیں سنی نہ جا سکیں (کیونکہ بہ ظاہر ان کی آوازیں طالبان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں)۔ انہوں نے مرد حضرات کے لیے داڑھی کی مخصوص لمبائی بھی بتائی کہ جس کی پابندی کرنا ان کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ماسوائے ایران جو کبھی کبھی حجاب کے سخت قوانین اور اس سے متعلق اپنی جنونی کارروائیوں کے حوالے سے نمایاں ہوتا ہے، کسی بھی مسلم ملک میں ایسے سخت قوانین نافذ نہیں جس کی روش طالبان نے اختیار کی ہوئی ہے۔
خیر طالبان اس عنصر کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہیں۔ حال ہی میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مسلم امہ کو تجویز دی کہ وہ طالبان کے ’شریعت پر مبنی نظام‘ سے ’متاثر‘ ہوں۔ شاید پاکستان ہی وہ واحد مسلم قوم ہے جس کا اس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ طالبان 30 سال قبل سعودی اور امریکی فنڈنگ سے پاکستان کے شمال وسطی علاقوں کے مدرسوں میں ہی وجود میں آئے اور انہیں ابتدائی فتح سوویت یونین کے انخلا کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار افغانستان میں حاصل ہوئی جہاں مجاہدین کے درمیان اقتدار کے حصول کی جنگ ہوئی (جسے مبینہ طور پر انہیں تینوں ممالک کی سرپرستی حاصل تھی)۔ مجاہدین کی موجودہ دور میں ’ایجنسیز‘ کہلائے جانے والے عناصر نے امداد کی جبکہ سابق آئی ایس آئی چیف حمید گُل کی جانب سے ان کی رہنمائی کی گئی۔
اس میں زیادہ حیرانی نہیں کہ بہت سے جلا وطن افغان شہری، طالبان کے دوبارہ سر اٹھانے اور دوسری بار برسراقتدار آنے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو موجودہ طالبان حکومت کی حمایت کرتے ہیں وہ بھی پاکستان کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں 2021ء میں اقتدار حاصل کرنے والی طالبان حکومت کے تین سالہ جشن پر ایک نوجوان نے ’جہاد جاری رکھنے‘ کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ’میں فلسطین جانا چاہتا ہوں‘ لیکن ان کی نسبت کم عمر طالب لڑکے نے کہا ’نہیں اب پاکستان کی باری ہے۔ ہمارا پہلا دشمن پاکستان ہے۔۔۔‘
گزشتہ دو دہائیوں سے ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور طالبان کی براہ راست مداخلت کی شاید ضرورت بھی نہیں کیونکہ پاکستان میں موجود انتہا پسند کافی حد تک اس مقصد میں کامیاب ہیں۔
افغانستان کے نئے اخلاقی قوانین پر حیرانی کا لفظ درست نہیں بلکہ اس فیصلے سے تو لوگوں کو صدمہ ہوا۔ یہ قوانین وزارتِ تبلیغ کو مزید اختیارات دیتے ہیں۔ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے رواں سال کہا تھا کہ ’آپ اسے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم انہیں زنا کرنے پر سرعام سنگسار یا کوڑے مارتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ خود شیطان کی نمائندگی کرتے ہیں؟‘
یہاں مرد گنہگاروں کا کوئی ذکر نہیں۔ اونچی آواز میں بات کرنے، گانے اور تلاوت کرنے کی حالیہ پابندی بھی خواتین تک محدود ہیں۔ اس طرح کے قوانین نے واضح طور پر ان مختلف تنظیموں کو مشتعل کیا ہے جو اب بھی کسی نہ کسی حد تک افغانستان میں فعال ہیں۔ تاہم رواں ماہ دی گارڈین کی رپورٹ میں ایک امدادی کارکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی۔ کارکن نے کہا کہ امداد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ وہ اور ان کے ساتھی کارکنان ان خواتین کی مدد کرسکیں جنہیں افغانستان میں ذہنی صحت کے چیلنجز کی حقیقی وبا میں تعاون کی اشد ضرورت ہے۔
20ویں صدی کے اوائل میں امیر امان اللہ نے نیک نیتی سے اصلاحات ترتیب دیں لیکن وہ اچھے سے ڈیزائن نہیں کی گئی تھیں جن کی وجہ سے 1924ء میں خوست میں انہیں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا تختہ الٹا جبکہ 5 سال بعد انہوں نے جلاوطنی اختیار کی۔
بعدازاں انتہا پسند نظام کو ختم کرنے کے لیے بہت سی کوششیں ہوئیں جن میں 1978ء میں ’Saur انقلاب‘ اور جمود توڑنے کی سوویت و امریکی کوششیں شامل ہیں لیکن صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی۔ 1980ء کی دہائی میں پاکستان نے سوویت کو کمزور کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون کیا، بعدازاں پاکستان کے اپنے اسٹریٹجک مفادات نے منفی کردار ادا کیا۔
ان پسماندہ اقدامات کے ممکنہ نتائج کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خواتین ان اقدامات کا خمیازہ برداشت کررہی ہیں لیکن طالبان سے لاتعلق افغان مرد بھی اس کا شکار ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تو کئی سالوں سے اس کے نقصانات کا سامنا کررہا ہے جبکہ مستقبل میں صورت حال مزید بدتر ہوسکتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔