اداریہ: کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف ریاست کا ہر آپریشن ناکام کیوں ہوتا ہے؟
جمعرات کو ماچھکہ کے علاقے میں پولیس کی دو گاڑیوں پر جرائم پیشہ افراد کے حملے کے بعد پنجاب اور سندھ میں پھیلا ہوا دریائی کچے کا علاقہ ایک بار پھر خبروں ک زینت بنا ہوا ہے۔
تادم تحریر کم از کم 12 پولیس اہلکاروں کی شہادت کی تصدیق ہوئی۔ جب بھی اس طرح کے پریشان کُن واقعات رونما ہوتے ہیں پورے ملک کی توجہ کچے کے علاقے کی جانب مبذول ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد جیسے ہی دیگر واقعات خبروں پر حاوی ہوجاتے ہیں، کچے کی صورت حال کو اگلے کسی بڑے واقعے کے پیش آنے تک بھلا دیا جاتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس کی گاڑی پر ایک کھیت کے قریب گھات لگا کر مسلح ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملہ کیا۔ ذرائع نے ہمیں بتایا کہ جرائم پیشہ گروہوں نے چند ہفتے قبل پولیس کی جانب سے اپنے ایک ساتھی کو ہلاک کرنے کے بعد بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی۔
جمعہ کو پنجاب پولیس نے دعویٰ کیا کہ حملے میں ملوث مرکزی مجرم کو ہلاک کردیا گیا ہے جبکہ کئی دیگر مشتبہ افراد زخمی ہوئے۔ پنجاب پولیس چیف نے اس افسوس ناک واقعے کے بعد ’تاریخی‘ آپریشن کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ اور پنجاب کے دریائی کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کا مسئلہ کئی دہائیوں پرانا ہے اور ان کے خلاف کئی ’بڑی‘ کارروائیاں شروع کی گئیں جن میں سے کچھ 1990ء کی دہائی کے اوائل سے لے کر 2016ء تک کی کارروائیاں قابلِ ذکر اور کچھ میں فوج کو شامل کیا گیا۔ اس کے باوجود مجرمان ہر بار زیادہ طاقت سے حملہ کرتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست کا ان سے نمٹنے کا طریقہ کار انتہائی ناقص ہے۔
کچے کے ڈاکو، اغوا برائے تاوان کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے متاثرین کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے ’ہنی ٹریپ‘ میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ جرائم پیشہ گروہ فوجی معیار کے اسلحے تک کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس آر پی جی اور حتیٰ کہ طیارہ مار گرانے والی بندوقیں بھی تھیں۔ آخر ان بھاری ہتھیاروں کی کس طرح دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل ہے کہ جہاں لوگوں کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں؟ اس کے علاوہ ڈاکوؤں کے خلاف ہر آپریشن ناکام کیوں ہوتا ہے؟ کچے کے علاقے کے غیر قانونی لوگوں کے حوالے سے کیا کیا جائے، ہم کئی سالوں سے ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔
چاہے نام نہاد مذہبی عسکریت پسند ہوں، علحیدگی پسند یا کچے کے علاقے کے بھاری ہتھیاروں سے لیس ڈاکو، ریاست کو ’ڈیجیٹل دہشت گردوں‘ اور دیگر لوگوں کو کچلنے کے بجائے ان پُرتشدد عناصر سے نمٹنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ڈاکو راج کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی اداروں کی انٹیلی جنس معلومات کے ذریعے سندھ اور پنجاب کی انتظامیہ کے درمیان بین الصوبائی رابطہ ضروری ہے۔
اس کے علاوہ اس بات جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا ان غیرقانونی افراد کے ہمدرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صفوں میں تو موجود نہیں یا ان کے طاقتور مقامی سرپرست تو نہیں۔ اگر ایسے روابط قائم ہوتے ہیں تو ان کے معاونین کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ 19ویں صدی کے حالات میں رہنے والے ڈاکو 21ویں صدی کے ہتھیاروں کے ساتھ ریاست پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انتظامیہ صرف اس وقت ردعمل دینے کے لیے آگے آتی ہے کہ جب سانحہ ماچھکہ جیسا کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے۔
لہٰذا ریاست کو کچے کی علاقوں میں تعلیم، صحت کی سہولیات اور ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں کیونکہ غربت اور مواقع کی کمی، مقامی لوگوں کو ڈاکوؤں کی صفوں میں بھرتی ہونے پر مجبور کرتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔