• KHI: Maghrib 6:34pm Isha 7:50pm
  • LHR: Maghrib 6:06pm Isha 7:27pm
  • ISB: Maghrib 6:11pm Isha 7:35pm
  • KHI: Maghrib 6:34pm Isha 7:50pm
  • LHR: Maghrib 6:06pm Isha 7:27pm
  • ISB: Maghrib 6:11pm Isha 7:35pm

فیکٹ چیک: کارساز حادثے کی مرکزی ملزمہ بیرون ملک فرار نہیں ہوئی

شائع August 21, 2024
— فوٹو: ڈان
— فوٹو: ڈان

20 اگست 2024 کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر متعدد پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ کارساز ٹریفک حادثے میں باپ بیٹی کو مارنے والی ملزمہ دیت ادا کرنے کے بعد بیرون ملک فرار ہوگئی، حالانکہ اس خبر میں کوئی سچائی نہیں ہے اور وہ اب بھی پاکستان میں ہے اور ملزمہ کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔

دعویٰ:

کراچی کے علاقے کارساز میں ٹریفک حادثے میں اپنی جیب کے ذریعے موٹرسائیکل سوار باپ بیٹی کو کچلنے والی خاتون ڈرائیور دیت ادا کرکے بیرون ملک فرار ہوگئی۔

وضاحت:

iVerify پاکستان کی ٹیم نے اس مواد کا جائزہ لیا ہے اور اس بات کا تعین کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

iVerify پاکستان کی ٹیم نے متعدد خبروں کی رپورٹس اور اس واقعے سے متعلق میں اسٹریم میڈیا کی کوریج کے ذریعے سوشل میڈیا پر کیے جانے والے دعویٰ کی تصدیق کی۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے 20 اگست 2024 کو مائیگر بلاگنگ ویب سائٹ ’ایکس‘ پر کارساز حادثے سے متعلق پوسٹ شیئر کی گئیں۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ کارساز حادثے کی مرکزی ملزمہ دیت ادا کرنے کے بعد بیرون ملک فرار ہوگئی ہیں، جب کہ ان کا ڈرائیور اب بھی پاکستان میں ہے جس کا ایک دن کا عدالتی ریمانڈ منظور کیا گیا ہے۔

یہ حادثہ 19 اگست کو کارساز روڈ پر اس وقت پیش آیا جب ایک تیز رفتار ایس یو وی کی ٹکر سے 2 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے۔

ٹویوٹا لینڈ کروزر چلانے والی خاتون نے موٹرسائیکل سوار باپ بیٹی کو ٹکر ماری اور پھر فرار ہونے کی کوشش کے دوران ایک کھڑی کار سے ٹکراگئی اور الٹنے سے پہلے متعدد موٹر سائیکلوں کو روند دیا۔

بعد ازاں، پولیس نے خاتون کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا، جب کہ سٹی کورٹ کراچی نے 20 اگست کو ملزمہ کا ایک روزہ ریمانڈ منظور کیا، لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئیں اور انہیں علاج کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر ( جے پی ایم سی) کے شعبہ نفسیات میں داخل کرایا گیا، پولیس نے اس بات پر زور دیا کہ وہ قانونی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

یہ کیسے شروع ہوا؟

20 اگست کو ایک سوشل میڈیا صارف (جو اپنی پچھلی پوسٹوں سے پاکستان تحریک انصاف کا حامی دکھائی دیتا ہے)، نے اییکس پر ایک پوسٹ شیئر کی جس کے کیپشن میں لکھا ’مبارک ہو پاکستانیوں، دانش اقبال کی اہلیہ نتاشا بیگم باپ بیٹی سمیت 5 افراد کو کچلنے کے بعد دبئی پہنچ گئی ہیں اور سنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو 2 کروڑ اور زخمیوں کو 50 لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ دانش اقبال اس وقت گل احمد انرجی اور اس کے ذیلی اداروں اور میٹرو پاور گروپ کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اس پوسٹ کو ایک لاکھ 8 ہزار سے زائد وویوز ملے اور 1400 بار ری پوسٹ کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر یہی پوسٹ ایک اور پی ٹی آئی کے حامی نے بھی شیئر کیا جس کے کیپشن میں لکھا گیا ’یہ انتہائی شرمناک ہے کہ امیروں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے، غریبوں کو ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس پوسٹ کو 3 ہزار 200 سے زیادہ وویوز ملے۔

متعدد دیگر صارفین نے بھی وہی الزام شیئر کیا جو کہ یہاں اور یہاں ملتی جلتی پوسٹس سے دیکھا جا سکتا ہے۔

طریقہ کار:

عوامی دلچسپی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اس حادثے میں ہونے والی اموات پر لوگوں کے غم وغصے کی وجہ سے اس دعوے کی تصدیق کے لیے حقائق کی جانچ کی گئی۔

سوشل میڈیا پر کیے جانے والے دعویٰ کی تصدیق کے لیے ڈان ڈاٹ کام اور جیو نیوز کی 20 اگست کی خبروں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ حادثے میں ملوث ملزمہ جناح ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

رپورٹس کے مطابق مقامی عدالت نے خاتون کو ایک روزہ ریمانڈ منظور کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ملزمہ کو 21 اگست کو میڈیکل رپورٹ کے ساتھ پیش کیا جائے۔

21 اگست کو ڈان نیوز نے فوٹیج نشر کی جس میں بتایا گیا کہ مرکزی ملزمہ کو آج عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جب کہ جیو نیوز نے بھی یہی اطلاع دی۔

فیکٹ چیک کی حیثیت: جھوٹ

کراچی ٹریفک حادثے میں ملوث خاتون ڈرائیور کا دیت کی رقم ادا کرکے بیرون ملک فرار ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔

میڈیا کی طرف سے 21 اگست کو نشر کی جانے والی فوٹیج میں دکھایا گیا تھا کہ اسے عدالت میں لایا گیا اور بعد ازاں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گاڑی چلانے والی مرکزی ملزمہ اب بھی پاکستان میں ہے اور بیرون ملک فرار نہیں ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 17 ستمبر 2024
کارٹون : 16 ستمبر 2024