بنگلہ دیش: سابق وزیراعظم حسینہ واجد کو ’انسانیت کےخلاف جرائم‘ کے مقدمے کا سامنا
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی تحلیل شدہ کابینہ کے آٹھ دیگر اراکین اور پولیس افسران کے خلاف ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ اور ’نسل کشی‘ کے الزام کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ترک خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کے مطابق عدالت کے تفتیشی ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عطا الرحمٰن نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ مقدمہ دارالحکومت ڈھاکا کے مقامی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں دائر کیا گیا ہے۔‘
یہ ٹربیونل 2010 میں اس وقت کی حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی حکومت نے ان لوگوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے تشکیل دیا تھا جنہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کی مخالفت کی تھی۔
اس ٹربیونل کی طرف سے اپوزیشن پارٹی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں پر مقدمہ چلایا جاچکا ہے۔
5 اگست کو پولیس کی گولی لگنے سے زخمی اور بعد ازاں جاں بحق ہونے والے نویں جماعت کے طالب علم الف احمد صیام کے والد نے اپنے وکیل غازی ایم ایچ تنیم کے ذریعے مقدمہ دائر کرنے کے بعد بدھ کو عدالت کی تفتیشی ایجنسی نے مقدمہ قبول کرلیا۔
قبل ازیں عبوری حکومت کے مشیر برائے قانون امور آصف نذر نے صحافیوں کو بتایا کہ طلبہ کے احتجاج کے دوران یکم جولائی سے 5 اگست تک ہونے والی ہلاکتوں میں ملوث افراد کے خلاف ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حسینہ واجد سمیت کسی بھی فرد کو استغاثہ سے استثنیٰ نہیں دیا جائے گا۔
مشیر قانون نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کو تحقیقاتی عمل میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس سے قبل حسینہ واجد کے خلاف قتل اور اغوا سمیت تین مقدمات درج کیے گئے تھے، جو 5 اگست کو بنگلہ دیش سے ہمسایہ ملک بھارت فرار ہوگئی تھیں۔