• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا

شائع August 12, 2024
— فائل فوٹو: آئی ایس پی آر
— فائل فوٹو: آئی ایس پی آر

نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کے معاملے میں مداخلت سمیت پاکستان آرمی ایکٹ کی دیگر خلاف ورزیوں پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں، جس پر انہیں تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے رواں سال 7 مئی کی پریس کانفرنس میں فوج کے خود احتسابی کے نظام کی تفصیلات بیان کی تھی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ فوج میں خود احتسابی کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے، جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے، اتنی ہی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، اور ہمیں اپنے احتساب کے نظام پر فخر ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 8 نومبر 2023 کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی جانب سے جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔

15 نومبر 2023 کو کیس کے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ’ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم‘ کے مالک معز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور ان کے حکم پر ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔

درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل ’آپ ٹی وی نیٹ ورک‘ کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔

عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے بینچ نے مزید ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اپنے چیمبر میں ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت آئینی دفعات کے مطابق نہیں تھی۔

ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل زاہدہ جاوید اسلم نامی خاتون کی جانب سے دائر کی گئی شکایت پر سماعت کے بعد معز احمد خان کو کلیئر قرار دیا تھا۔

زاہدہ اسلم نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا کہ معز احمد خان ماہانہ تنخواہ کے عوض ان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے تھے، تاہم مبینہ طور پر دھوکا دہی سے انہوں نے ان کی جائیدادیں اپنے نام منتقل کرلیں اور جب انہوں نے زمین واپس لینے کی کوشش کی تو معز احمد خان نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

جسٹس (ر) ثاقب نثار کو جمع کرائی گئی ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق زاہدہ جاوید اسلم کی زمین اصل دستاویزات کی بجائے فوٹو کاپی کی بنیاد پر معز خان کے نام منتقل کی گئی۔

ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتائج میں بتایا گیا کہ شکایت کنندہ زاہدہ جاوید اسلم اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکیں لیکن ان کا یہ دعویٰ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں معز احمد خان نے ڈرایا دھمکایا کیونکہ معز احمد خان نے زاہدہ جاوید اسلم کے اربوں روپے کے حصے کی مد میں انہیں کچھ بھی ادا نہیں کیا۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زیربحث جائیداد سے متعلق ڈیل نہ تو عام حالات میں عمل پذیر ہوئی اور نہ ہی رجسٹرار آفس اسلام آباد کی جانب سے دستاویزات کی فوٹو کاپیوں کی بنیاد پر ملکیت کی منتقلی کا عمل شفاف طریقے سے سرانجام دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024