• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

چیف جسٹس کا قتل کے مجرم کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر پر اظہار افسوس

شائع August 8, 2024
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے 27 سال قبل کیے گئے قتل کے جرم میں قید ایک مجرم کی فوری رہائی کا حکم دے دیا جب عدالت کو یہ بتایا گیا کہ مقدمے کے دونوں فریق 6 سال پہلے ہی سمجھوتہ کر چکے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل شریعت اپیلٹ بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس نے حکم جاری کرتے ہوئے فریقین کو بروقت انصاف فراہم کرنے میں عدالت کی نااہلی پر معذرت کی۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، علما ڈاکٹر محمد خالد مسعود اور ڈاکٹر قبلہ ایاز شامل تھے۔

مجرم کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ احمد شجاع بٹ نے پہلے اپیلٹ بینچ کو بتایا کہ خانیوال کے رہائشی محمد اکرم کو 13 اپریل 1997 کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ 2018 میں دونوں فریقین میں صلح ہو گئی تھی اس کے باجود مجرم ابھی تک جیل میں ہے۔

اپنے حکم میں شریعت اپیلٹ بینچ نے ذکر کیا کہ چونکہ عدالت کو مناسب مدد فراہم نہیں کی گئی اس لیے کسی نتیجے پر پہنچنے میں وقت لگا، حالانکہ 2018 میں دونوں فریقین میں سمجھوتہ ہوگیا تھا، اس کے نتیجے میں عدالت حکام کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیتی ہے۔

وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے معافی مانگی کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے باوجود مجرم کو 6 سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے یہ بھی یاد کیا کہ کس طرح مصالحتی معاہدوں کی بنیاد پر بریت کے حق میں اور اس کے خلاف بحث کی گئی، لیکن اشارہ دیا کہ عدالت مستقبل میں اس سلسلے میں رہنما اصول لے کر آ سکتی ہے۔

سپریم کورٹ پینل میٹنگ کے منٹس اپ ڈیٹ

ایک الگ پیش رفت میں سپریم کورٹ نے یکم اگست کے اجلاس کے بارے میں اپنے منٹس میں ترمیم کی ہے جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ صحافی ارشد شریف کے المناک قتل سے متعلق کیس کی سماعت 5 رکنی بینچ کرے گا۔

5 اگست کو سپریم کورٹ نے اجلاس کے منٹس جاری کیے تھے جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ ارشد شریف کیس کو 5 ججوں کے لارجر بینچ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا کیونکہ اس کے لیے کسی آئینی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے یکم اگست کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت مقدمات کو طے کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے اس کی وجہ بتائی تھی۔

یہ اجلاس تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس سید منصور علی شاہ کی جانب سے اس کیس کو کمیٹی کے پاس واپس بھیجنے کے بعد منعقد کیا گیا تھا کہ پانچ ججوں پر مشتمل لارجر بینچ نے پہلے کیس کی سماعت کی تھی اور اسے اتنے ہی ججز پر مشتمل بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے۔

اب نئے منٹس میں وضاحت کی گئی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس محسن اختر نے خواہش کی تھی کہ اجلاس میں ہونے والی بحث کی درست عکاسی کرنے کے لیے کمیٹی کے 18ویں اجلاس کے منٹس میں کچھ ترمیم کی جائے۔

ترمیمی منٹس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس محسن اختر دونوں کی رائے تھی کہ ارشد شریف کیس کی سماعت پانچ رکنی بینچ نے کی جسے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے نفاذ سے قبل 6 دسمبر 2022 کے انتظامی حکم نامے کے ذریعے تشکیل دیا تھا۔

اس وقت بینچ میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، اس وقت کے جسٹس اعجاز الاحسن، سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

نئے منٹس میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر نقوی نے کیس کی وسیع پیمانے پر سماعت کی تھی تو یہ مناسب ہوگا کہ جسٹس جمال مندوخیل بینچ کی سربراہی کریں اور جسٹس مظہر نقوی کے بعد تین سینئر ترین ججوں کو بینچ میں شامل کیا جائے، یعنی جسٹس عائشہ اے۔ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024