• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور

شائع August 6, 2024 اپ ڈیٹ August 7, 2024
— فائل فوٹو: قومی اسمبلی ایکس
— فائل فوٹو: قومی اسمبلی ایکس

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، مسلم لیگ (ن) رکن اسمبلی بلال اظہر کیانی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا، اپوزیشن اراکین کی جانب سے بل کی شدید مخالفت کی گئی۔

اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور ایوان میں نعرے بازی کرتے رہے، اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے آ گئے، اپوزیشن ارکان نے بل نامنظور کے نعرے، عدلیہ اور جمہوریت پر حملہ نامنظور کے نعرے لگائے۔

حکومتی ارکان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا، بل مسلم لیگ (ن) کے بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے مشترکہ طور پر پیش کیا۔

پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا، ترمیمی بل

ترمیمی بل کے مطابق انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہو گا، مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔

ترمیمی بل میں کہا گیا کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔

سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کی ترامیم مسترد

سنی اتحاد کونسل کے صاحبزاد صبغت اللہ نے ترمیم پیش کردی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سنی اتحاد کونسل رکن کے ترمیم کی مخالفت کی، رکن اسمبلی صبغت اللہ کی ترمیم کثرت رائے سے مسترد ہوگئی۔

علی محمد خان نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پیش کی، وزیر قانون نے علی محمد خان کی ترمیم کی بھی مخالفت کی جس کے بعد علی محمد خان کی ترمیم بھی کثرت رائے سے مسترد ہوگئی۔

پی ٹی آئی کا قانون سازی کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل غیر آئینی ہے، کس طرح قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے ہمارے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا حق ہمیں سپریم کورٹ سے ملا ہے، سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے آپ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں، آپ کس طرح ہم سے ہمارا حق چھین سکتے ہیں، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سیاسی مقاصد کے لیے پیش کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہمارا حق تسلیم کیا، میں نے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سامنے اپنا موقف رکھا، انتخابی بلیٹ پیپرز پر بیٹ کا نشانہ تک ہٹادیا گیا مگر پھر بھی عوام نے حق میں ووٹ دیا۔

پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی کا کہناتھا کہ کیا صرف 39 ارکان حلال اور باقی حرام ہیں، ہم اس بل کو مسترد کرتے ہیں، ہم اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں، ہم اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ میں جائیں گے یہ وہاں سے بھی مسترد ہوگا، کیونکہ یہ بل قانون سازی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کی فسطائیت شامل ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا، قانون سازی بے شک کریں مگر قانون سازی پاکستان کے مفاد میں ہونی چاہئے، اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔

قانون سازی صرف اس ایوان کا اختیار ہے، وزیر قانون

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسی ایوان میں 81 ارکان نے حلف دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں، آج کہتے ہیں کہ نہیں ہم فلاں جماعت کا حصہ ہیں؟ کسی ایک بات پر تو کھڑے ہوں، ہم صرف اور صرف انتخابات کے قانون میں وضاحت لا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی صرف اور صرف اس ایوان کا اختیار ہے کسی اور کو نہیں ہے، اللہ کے 99 ناموں کے نیچے کہتا ہوں کہ یہ قانون سازی آئین اور قانون کے مطابق ہے۔

’پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے لیکن تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے‘

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین اور قانون کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے، یہ ساری کوشش صرف اس لیے ہے کہ جس طرح فارم 47 کو تبدیل کرکے اپنی حکومت بنالی ہے، اس طرح یہ اب کوشش کررے ہیں کہ خواتین اور اقلیتیوں کی مخصوص نشستیں ان کو مل جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری 68 خواتین اور 11 اقلیتیوں کی نشستیں ہیں جس کے لیے ہم نے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کو 4 درخواستیں دیں، جس وقت کاغذات نامزدگی فائل کرلیے تو سازش کے تحت نشان لے لیا گیا، ہمیں ہرانے کی کوشش کی گئی لیکن دو تہائی اکثریت سے جیتے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، تھی اور رہے گی، یہ پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے لیکن تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے، اس قانون سازی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی جماعتوں کو جگہ نہیں دیں گے تو کوئی اور آئے گا، آپ کا انجام بھی حسینہ واجد جیسا ہوگا، کل ہمارا ایک رکن فوت ہوا لیکن وہ گھر نہیں جاسکا، وہ گھر جانا چاہتا تھا لیکن بربریت کی وجہ سے نہیں جاسکا۔

’مسئلہ کشمیر کو سپورٹ نہیں کرتے تو اس کی نفی بھی نہ کریں‘

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آئین بناتا ہے اور دیگر ادارے اس کی تشریح کرتے ہیں، ایک روش تھی کہ حکومت کوگھر بھیج دیا جاتا تھا، اس کا تسلسل توڑا گیا اور یہ روایت ختم کردی گئی، اعتراضات آج بھی ہیں، لیکن جمہوریت جیسی بھی ہو، اس پر اعتراضات بھی ہوں، لیکن جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ایک دوسرے کے سیاسی، آئینی وقانونی موقف کا احترام ہونا چاہیے، اس کی وجہ سے اداروں پر حملہ نہیں ہونا چاہیے، پارلیمنٹ سپریم ہے، یہ آئین اور قانون کے مطابق اس کی ایوان کی جو قدر وقیمت اور طاقت ہے وہ کسی اور ادارے کو حاصل نہیں، یہ ادارہ آئین بناتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کےاس سفرمیں خامیاں ہوسکتی ہیں، اس پر سوالیہ نشان نہ لگائیں، امریکا سمیت دیگر جمہوری ممالک میں بھی کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قوم کا 75 سال سےکشمیر پر ایک ہی موقف ہے، جو اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں میں رجسٹرڈ ہوچکا ہے، مسئلہ کشمیر کو سپورٹ نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم اس کی نفی بھی نہ کی جائے، کشمیر میں بھارتی مظالم جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کی جنگ آزادی میں ہزاروں لوگ شہید ہوچکے ہیں اور گزشتہ 10 ماہ کے دوران 40 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، اسی طرح مسئلہ کشمیر پر بھی جنگیں لڑی گئیں، مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر لوگوں نے قربانیں دیں اور آج بھی ان کا استحصال ہورہا ہے۔

ایم کیو ایم کا تحفظات کا اظہار

ایم کیو ایم پاکستان کے رکن اسمبلی فاروق ستار نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بل پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، آئینی ادارے کی ضد میں کی جانے والی قانون سازی ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے پہلے صرف سیاسی جماعتیں دست گریبان تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوگئی ہے، یہ قانون سازی کا حربہ تو ہوسکتا ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کی شکست ہے۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ آپ مفاہمت کا راستہ نکالنے کے لیے تیار نہیں ہے، کاش اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کیا جاتا، عدالت کے بجائے پارلیمنٹ اس کا فیصلہ کرتی تو راستہ نکل سکتا تھا۔

’الیکشن ایکٹ کے حوالے سے غلط تاثر دیا جارہا ہے‘

پاکستان پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ ایوان میں عوام کے مسائل پربات ہونی چاہیے اور قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے، عدالتوں کا نہیں، الیکشن ایکٹ کے حوالے سے غلط تاثر دیا جارہا ہے، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سپریم کورٹ کے فیصلےکے خلاف نہیں ہے، اور یہ بل پارٹی سے وفاداری کو یقینی بناتا ہے تو غلط کیسے ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے ڈیجیٹل دہشت گردی شروع کی ہے، اب یہ دہشت گردی نہیں چلے گی، ہم آپ کے عمر رسیدہ چیئرمین پر بات نہیں کریں گے، پاکستان کے مسائل اس شخص سے بڑے ہیں، اس کو فریج دے دو، اے سی دے دو ، اور عوام کی بات کرو۔

شازیہ مری کا کہنا تھا کہ مجھے فلسطین کی قرارداد پر آپ کی تکلیف کا پتہ ہے، آپ کے لیڈر نے ایک زائنسٹ کو سپورٹ کیا، امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف قرارداد آتی ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں، قرارداد وہ لاتا ہے جو اسرائیل کا سب سے بڑا سپورٹر ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی والوں کی مذمت کریں، آپ نے نفرت کو پڑھوان چڑھایا، تقسیم اور نفرت پیدا کرنے والا محب وطن نہیں ہوسکتا، محب وطن 14 سال قید کاٹ کر صدر کی کرسی پر ہے، ہم استحکام قائم رکھنے کیلئے ہر قیمت ادا کریں گے۔

’عمران خان معاہدہ کرکے ملک سے نہیں بھاگے‘

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے کہا کہ یہ بھٹو، بے نظیر کے نظریے کی بات کرتے ہیں، ان لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا نظریہ دفن کردیا، بے نظیر کی شہادت پر لوگوں کی املاک کو جلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کا سب کچھ اس ملک میں ہے، بانی پی ٹی آئی کی ملک سے باہر کوئی پراپرٹی نہیں ہے، وہ معاہدہ کرکے ملک سے نہیں بھاگے بلکہ آج بھی جیل میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

حامد رضا کا کہنا تھا کہ اس وقت سے ڈریں جب وقت کا پہیہ بدلے گا، جو ہاتھ ہماری عزت کی طرف اٹھا وہ ہم واپس نہیں جانے دیں گے، ہمیں اخلاقیات کو یاد رکھنا ہوگا۔

بھارتی آئین میں ترمیم سے متعلق قرارداد منظور

قومی اسمبلی میں بھارتی آئین میں ترمیم سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا، تاہم محمود خان اچکزئی کی جانب سے قرارداد کی مخالفت کی گئی۔

قرارداد کے مطابق 5 اگست 2019 کے بھارتی غیر قانونی اقدامات اٹھائے گئے، اس دن کو پاکستان یوم استحصال کشمیر کے طور پر مناتا ہے، مسئلہ جموں کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر تاحال موجود ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان کشمیر کی غیر متزلزل سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے، ایوان لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے، بھارتی غیر ذمہ دارانہ بیانات کو مسترد کرتا ہے۔

بعد ازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اگست جمعہ صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحاد کو ایک بڑا دھچکا لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دے دیا تھا۔

یہ فیصلہ 13 رکنی بینچ نے سنایا اور اسے یوٹیوب پر لائیو سٹریم کیا گیا، اس سے ایک دن پہلے عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں سے انکار کے خلاف دائر اپیلوں کے ایک سیٹ پر سماعت ختم کرنے کے بعد اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

30 جولائی کو انتخابی قانون میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز بلال اظہر کیانی کی طرف سے پیش کیے گیئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ وقت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے خواتین اور غیر مسلم امیدواروں کے لیے مخصوص نشستیں مختص نہیں کی جانی چاہیے۔

31 جولائی کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والے متنازع بل کو سیاسی مبصرین کی طرف سے مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024