بلوچ یکجہتی کمیٹی کا گوادر، نوشکی میں مبینہ فائرنگ کرنے والوں پر اندراج ایف آئی آر کا مطالبہ
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جنہوں نے گوادر اور نوشکی میں مظاہرین پر مبینہ طور پر فائرنگ کرکے 4 افراد کو قتل اور 6 کو زخمی کردیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں محکمہ داخلہ کے سینئر عہدیدار نے بتایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے حکومتی کمیٹی کے سامنے نئے مطالبات رکھے ہیں، جن کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے۔
محکمہ داخلہ کے حکام کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ میں سینئر وزیر ظہور احمد بلیدی کی سربراہی میں حکومتی ٹیم نے دونوں فریقین کے درمیان گزشتہ معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لیا۔
نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما حسین اشرف اور گوادر سے رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ اور دیگر رہنما بھی ٹیم کا حصہ ہیں، جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی ظہور احمد بلیدی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو بتایا کہ زیادہ تر زیر حراست حامیوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔
جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہے، ان کی رہائی کے لیے قانونی کارروائی جاری ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت تمام گرفتار افراد کی رہائی اور ان کے خلاف درج مقدمات کو واپس لینے پر زور دے رہی ہے۔
ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامیوں اور کارکنان کے خلاف درج ایف آئی آر کے معاملے پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے کیونکہ یہ عدالتی عمل کی تکمیل کے بعد ہی طے ہو سکتا ہے۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے دور کے باوجود پیر کو بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سیکڑوں حامیوں اور کارکن کا صوبے کے مختلف علاقوں میں احتجاج جاری رہا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبنگ بلوچ نے بھی جاری مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گوادر، کوئٹہ، تربت، حب اور نوشکی میں دھرنے اور روڈ بلاک جاری ہیں کیونکہ قیادت نے ابھی تک دھرنے ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے مختلف حصوں میں ٹیلی فون سروسز بحال ہو چکی ہے تاہم انٹرنیٹ اور واٹس ایپ کی سروسز مکمل بحال نہیں ہوئیں۔
دریں اثنا، گوادر، تربت اور دیگر علاقوں میں ایک ہفتے سے زائد کے احتجاج کے بعد معمولاتِ زندگی واپس آ رہے ہیں اور سڑکوں پر رکاوٹوں نے روزمرہ استعمال کی اشیا اور پٹرول کی شدید قلت پیدا کر دی۔
بازار اور کاروبار کھلنے کے باوجود کوئٹہ اور دیگر کئی قصبوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی قلت برقرار ہے کیونکہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے سپلائی ابھی تک نہیں پہنچ سکی ہے۔
کوئٹہ-تفتان ہائی وے اور دیگر سڑکیں بدستور بند ہونے کے باعث سرحدی علاقوں میں ایرانی پیٹرول بھی نہیں پہنچ رہا۔