اداریہ: ’اختلاف رائے کے تمام راستے بند کرنے والوں کے لیے بنگلہ دیش سبق ہے‘
کئی ہفتوں سے جاری حکومت مخالف شدید مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ واجد کا پانچواں دورِ حکومت گزشتہ روز اپنے اختتام کو پہنچا۔ حسینہ واجد کے مستعفی یا شاید برطرف کیے جانے اور پھر ملک چھوڑ دینے کے بعد ڈھاکا کی سڑکوں پر جشن کا سا سماں تھا۔
گزشتہ ماہ سے بنگلہ دیش اضطراب کی کیفیت میں مبتلا تھا جہاں طلبہ کی قیادت میں تحریک کا آغاز ہوا جن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ 1971ء کی آزادی کی جنگ میں لڑنے والوں کے خاندان کا سرکاری نوکریوں میں کوٹہ ختم کریں۔ تاہم مظاہرے ہوئے تو بات محض کوٹہ سسٹم تک محدود نہیں رہی۔
مسلسل 15 سالوں سے بنگلہ دیش پر حکمرانی کرنے والی شیخ حسینہ واجد نے اپوزیشن کو دبایا اور لوگوں کو اپنی آواز اٹھانے کے مواقع چھین لیے تھے جس کی وجہ سے عوام میں غصہ لاوے کی صورت میں پک رہا تھا۔
ان کے مخالفین نے دعویٰ کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت کرپشن، ماؤرائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی مرتکب ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند ہفتوں سے انتظامیہ اور حکمران جماعت عوامی لیگ کے حامی، مظاہرین کے ساتھ گتھم گتھا ہوئے۔ حالیہ مظاہروں میں کم از کم 300 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ فسادات ان کی اقتدار سے بےدخلی کا پروانہ ثابت ہوئے اور بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے اعلان کیا کہ وہ ملک میں عبوری حکومت بنائیں گے۔
ڈان اخبار نے سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کی بار ہا مخالفت کی ہے۔ پاکستان بھی متعدد بار ملٹری دور سے گزر چکا ہے پھر خواہ وہ براہِ راست مارشل کی صورت میں ہو یا دیگر۔ بنگلہ دیش بھی باخوبی واقف ہے کہ ملکی معاملات جرنیل اپنے ہاتھ میں لے لیں تو کیا ہوتا ہے۔ دونوں ممالک میں ہی اس طرح کی مداخلت سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیخ حسینہ کےغلط اقدامات، خراب طرزِ حکمرانی اور بڑھتی ہوئی غیرمقبولیت، فوج کے لیے سنہری موقع ثابت ہوئیں لیکن فوج کی مداخلت اور جمہوری عمل کو مزید نقصان پہنچانے کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس طرح کے اقدام کے تباہ کُن نتائج سامنے آتے ہیں اور نسلوں پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حسینہ واجد کے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی آوازوں کا گلہ گھونٹ دینے کا مطلب یہی تھا کہ سیاسی جنگیں جو پارلیمنٹ یا بیلٹ باکس پر لڑی جاتی ہیں، وہ اب سڑکوں پر لڑی جائیں۔ لیکن پھر بھی فوج کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔
قابلِ اعتماد انتخابات منعقد کرکے عوام کو جلد از جلد ان کے حقوق واپس کردینے کے بعد بغیر کسی رکاوٹ کے فوج کو بیرکوں میں واپس چلے جانا چاہیے۔ ایک متحرک سیاسی ماحول میں اگر فوج جلد پیچھے نہ ہٹی تو بنگلہ دیش عدم استحکام کے ایک نئے دور میں داخل ہوجائے گا۔
حسینہ واجد کے زوال میں تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے اسباق ہیں بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک جن کی سماجی سیاسی خصوصیات بنگلہ دیش سے مماثل ہیں۔ معاشی کمزوری کے ساتھ سیاسی جبر کا امتزاج لوگوں میں اضطراب پیدا کرنے کا نسخہ ہے۔ اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی رفتار کم ہونے نے ملک کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔
جب اختلاف رائے کے تمام راستے بند کردیے جاتے ہیں اور مخالفین کی آوازوں کو دبانے کے لیے آمرانہ ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں تو پُرتشدد ہنگامے ہوتے ہیں یا پھر غیرسیاسی قوتیں ’ملک بچانے‘ کے لیے میدان میں آجاتی ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔