تنخواہ دار طبقے نے ٹیکس ادائیگی میں ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو پیچھے چھوڑ دیا
مالی سال 2024 میں تنخواہ دار طبقے نے ٹیکسٹائل سیکٹر شعبے کے 111.23 ارب کے مقابلے میں 367.8 روپے ٹیکس ادا کیے ہیں، جو کہ بینکوں کی ٹیکس ادائیگیوں کی مد میں 946 ارب روپے اور پیٹرولیم مصنوعات کے 413.48 ارب روپے سے قریب تر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 میں تنخواہ دار طبقہ انکم ٹیکس جمع کرنے میں ملک کا تیسرے بڑے شراکت دار کے طور پر سامنے آیا، جو کہ بینکوں اور پیٹرولیم مصنوعات کے قریب ہے ، لیکن اس نے ملک کے ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بینکنگ شعبے نے مالی سال 2024 میں انکم ٹیکس آمدنی میں 946.08 ارب روپے کا اضافہ کیا ، جو مالی سال 2023 کے 568.68 ارب روپے کے مقابلے 66 فیصد زیادہ ہے۔
یہ رجحان بتاتا ہے کہ بینکوں کے زیادہ منافع کی وجہ سے ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ، اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بینکس کسٹم کی وصولی ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں بہت کم حصہ ڈالتے ہیں ۔
مال سالی 2024 میں تنخواہ دار طبقے نے انکم ٹیکس آمدنی میں 367.8 ارب روپے کا حصہ ڈالا، جو مالی سال 2023 کے 263.8 ارب روپے کے مقابلے میں 39.42 فیصد زیادہ ہے، مزید برآں قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ رقم ٹیکساٹائل برآمدکنندگان کے جمع کردہ ٹیکس 276.57 ارب سے زیادہ ہے ، جنہوں نے مالی سال 2024 میں 16.655 ارب ڈالرز مالیت کا سامان بھی بر آمد کیا ہے ۔
ٹیکسائل کے شعبے نے مالی سال 2024 میں ٹیکس محصولات میں 111.23 ارب روپے کا حصہ ڈالا ہے ، جو گزشتہ مالی سال کے 103.56 ارب روپے کے مقابلے میں 7.4 فیصد زیادہ ہے ، اس کے علاوہ برآمد کنندگان کے لیے حکومت نے مقررہ ٹیکس نظام میں ترمیم کے ساتھ ساتھ بجٹ میں ان کی شرح میں اضافہ بھی کیا ہے ۔
پیٹرولیم مصنوعات وفاقی محصولات میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں ، جس نے مالی سال 2024 میں ٹیکس آمدنی میں 11.95 کھرب روپے ادا کیے، یہ رقم پچھلے سال کے 11.38 کھرب روپے سے 5 فیصد زیادہ ہے، اس شعبے کے اندر ، انکم ٹیکس کی آمدنی 6 فیصد سے بڑھ کر 413.48 ارب تک پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ سال کے دوران 388.75 ارب روپے تھی ۔
پیٹرولیم اشیا سے وصول کیے جانے والے سیلز ٹیکس کی آمدنی 457.88 ارب رہی،جو گزشتہ مالی سال کے 447.71 ارب روپے کے مقابلے 2.27 فیصد زیادہ ہے، پی او ایل سے حاصل کی جانے والی کسٹم آمدنی میں 310.62 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے کو ملا ، جو پچھلے مالی سال کے 289.89 ارب روپے کے مقابلے میں 7.1 فیصد زیادہ ہے ۔
واضح رہے، پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز کے علاوہ ، حکومت ان پر پیٹرولیم لیوی بھی وصول کرتی ہے۔
پاور سیکٹر ایک اور ایسا شعبہ ہے جو ایف بی آر کے لیے کثیر آمدنی والے شعبے کے طور پر سامنے آیا ہے، پاور سیکٹر سے حاصل کی جانے والی محصولات مالی سالی 2024 میں 38.7 فیصد بڑھ کر 640.61 ارب روپے ہو گئی جو پچھلے سال کے 461.95 ارب روپے سےزیادہ ہے۔
بجلی کے شعبے میں سب سے زیادہ وصولی سیلز ٹیکس سے حاصل کی گئی ، جس کی کل رقم 411.005 ارب روپے تک ہے جو گزشتہ مالی سال کے 293.18 ارب روپے کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے ، اس کے ساتھ اس شعبے میں مالی سال 2024 میں انکم ٹیکس کی وصولی 46. 2 فیصد اضافے کے ساتھ 219.39 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے ، جو پچھلے مالی سال میں 150.06 ارب روپے رہی تھی۔
مزید ازاں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر زیادہ ٹیکسز لگانے سے عوام پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے ، جس کے نتیجے میں بلوں اور گاڑیوں کے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے، ان عوامل نے ملک میں افراط زر کی مجموعی شرح کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جو مالی سال 24 میں 23.41 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
چینی کا شعبہ ، جس کی زیادہ تر ملکیت سیاسی اشرافیہ کی ہے ، اس نے محصولات میں بہت کم حصہ ڈالا ہے، راوں سال اس شعبے سے حاصل کی جانی والی کل محصولات 30 فیصد اضافے کے ساتھ 135.24 ارب روپے رہی، جو پچھلے مالی سال میں 135.24 ارب تھی۔
تاہم ، اس اضافے کا بڑا حصہ صارفین سے سیلز ٹیکس کی زیادہ وصولی کو قرار دیا جاسکتا ہے ، جو پچھلے سال کے 89.07 ارب روپے کے مقابلے 29.56 فیصد اضافے کے ساتھ 115.39 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
چینی کے شعبے کا انکم ٹیکس میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ، جو پچھلے سال کے 12.43 ارب روپے کے مقابلے رواں سال 25.02 فیصد اضافے کے ساتھ 15.54 ارب روپے تک ہے ، مزید ازاں گزشتہ سال، ملرز کو مقامی فروخت سے پیسے کمانے کے علاوہ چینی برآمد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
ٹیلی کام ترقی کرتا ہوا ایک اور شعبہ ہے ، جس کی کل آمدنی گزشتہ مالی سال 2023کے 160.30 ارب روپے کے مقابلے 16.8 فیصد اضافے کے ساتھ 187.19 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، اس شعبے سے رواں سال انکم ٹیکس کی آمدنی نمایاں اضافے کے ساتھ گزشتہ سال کے 126.49 ارب روپے کے مقابلے 14.11 فیصد اضافے ساتھ 144.35 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، اس میں ود ہولڈنگ ٹیکس کی وصولی شامل ہے، جس میں ٹیلی کام کمپنیاں موبائل فون کارڈز اور ڈیٹا کے استعمال پر انکم ٹیکس کے لیے ود ہولڈنگ ایجنٹس کے طور پر کام کرتی ہیں۔
انکم ٹیکس کی وصولی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ موبائل فون کارڈز پر ود ہولڈنگ ٹیکس ہے ، جس میں بڑی حد تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
دوائیوں کا شعبہ، جو کہ ترقی کررہا ہے ، اس کی ٹیکس وصولی مالی سال 2024 میں 2.5 فیصد کے معمولی اضافے کے ساتھ 100.63 ارب رہی ہے ، جو کہ مالی سال 2023 میں 98.15 ارب روپے تھی، تاہم ، مالی سال 2024 میں اس شعبے سے انکم ٹیکس کی وصولی درحقیقت 2.5 فیصد کی کمی کے ساتھ 46.61 ارب روپے رہ گئی ہے ، جو پچھلے سال 47.81 ارب روپے تھی ۔
تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ اربوں ڈالرز کی دوا ساز صنعت ملک سے مصنوعات برآمد کرنے اور صارفین سے زیادہ گھریلو قیمتیں وصول کرنے کے باجود انکم ٹیکس میں کم حصہ ڈالتی ہے ۔