• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی پر ملا جلا ردعمل

شائع August 2, 2024
یہ دوسرا موقع تھا جب آزاد بنگلہ دیش میں پارٹی پر پابندی لگائی گئی — فائل فوٹو
یہ دوسرا موقع تھا جب آزاد بنگلہ دیش میں پارٹی پر پابندی لگائی گئی — فائل فوٹو

بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعت اسلامی (جے آئی) پر پابندی لگانے کا فیصلہ ’طویل عرصے سے زیر التوا‘ تھا۔

ترک خبر رساں ایجنسی ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت نے جمعرات کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 2009 کے تحت ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت بنگلہ دیش جے آئی، اور اس کے طلبہ ونگ بنگلہ دیش اسلامی چھاترا شبیر کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

حکمران عوامی لیگ کی حکومت نے جماعت اور شبیر پر سرکاری ملازمتوں کے کوٹے میں اصلاحات کے مطالبے کے لیے طلبہ کی قیادت میں جاری احتجاج کے دوران سرکاری املاک پر پرتشدد حملوں کا الزام لگایا ہے۔ جولائی کے وسط میں شروع ہونے والے ان مظاہروں کے نتیجے میں 200 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

انیس الحق نے جماعت اسلامی کو ’عسکریت پسندوں کا پلیٹ فارم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے سرکردہ رہنماؤں پر پہلے ہی 1971 کی جنگ آزادی کے دوران کیے گئے جرائم کا مقدمہ چلایا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جے آئی اور اس کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترا شبیر پر پابندی لگانا ضروری تھا۔‘

یہ دوسرا موقع تھا جب آزاد بنگلہ دیش میں پارٹی پر پابندی لگائی گئی۔ پہلی پابندی 1972 میں نئی آئینی شق کے بعد اس کے ’آزادی مخالف مؤقف‘ کی وجہ سے لگائی گئی تھی، اس آئینی شق نے مذہب پر مبنی سیاست کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

تاہم تین سال بعد یہ پابندی ہٹا دی گئی جب اقتدار میں آنے والے جنرل ضیا الرحمٰن نے مارشل لا کے اعلان کے ذریعے آئین میں ترمیم کی تھی۔

پابندی کے جواب میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سربراہ شفیق الرحمٰن نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان کی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے والے ایگزیکٹو آرڈر کی شدید الفاظ میں مذمت اور احتجاج کیا گیا۔

شفیق الرحمٰن نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے ’طلبہ برادری کے غیر سیاسی مظاہروں کو روکنے کے لیے پارٹی کے حامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے تشدد کو منظم کیا‘ اور دعویٰ کیا کہ سرکلر ’اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے جاری کیا گیا۔‘

صحافی اور تجزیہ کار شایان ایس خان کا ماننا ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ پر پابندی عائد کرنے سے عوامی لیگ کو سیاسی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ طلبہ کی قیادت میں جاری احتجاج کے دوران غیر سیاسی عوام میں پارٹی کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی اور چھاترا شبیر پر پابندی کی واحد وجہ نئی دہلی میں دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مطمئن کرنا ہے، اور اس کی وجہ اسلام پسند جماعتوں کے بارے میں نئی ​​دہلی کی تشویش اور گزشتہ ایک دہائی میں حسینہ واجد کی حکومت کے لیے اس کی سمجھی جانے والی حمایت ہے۔‘

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے منگل کو اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ بہت کمزور ہے اور اس کا مقصد عوام کی توجہ زیادہ اہم مسائل سے ہٹانا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نوکریوں کے کوٹے میں کمی کے حکم کے باوجود طلبہ کی قیادت میں احتجاج زوروں سے جاری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024