’ماہ رنگ، عالیہ یا یاسمین، ریاست کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کا مقدر ایک جیسا ہوتا ہے‘
بلوچستان سے کراچی اور کراچی سے دیگر مرکزی علاقوں تک، گزشتہ چند ماہ سے جیسے پورا ملک ہی اپنے شہریوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے۔ ان تنازعات میں جتنا زیادہ اضافہ ہورہا ہے اور جس طرح یہ پھیل رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ سب سے زیادہ سامنا خواتین کر رہی ہیں۔
گزشتہ دو، تین دنوں سے ہم اپنے موبائل فونز کی اسکرینز پر خوفناک مناظر دیکھ رہے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ نے گوادر میں مظاہرے کی کال دی تو یہ دیکھ کر ہرگز حیرت نہیں ہوئی کہ ان کی کال پر گوادر آنے والوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ گوادر جانے والے قافلوں کے راستوں میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، ڈرایا دھمکایا گیا اور پھر بلآخر تشدد کے ذریعے مظاہرین کو گوادر جانے سے روکا گیا۔ یہ ایک اور موقع تھا کہ جب مین اسٹریم میڈیا کچھ اور دکھانے میں مصروف تھا جبکہ سوشل میڈیا نے بلوچستان کے مناظر دکھانے کی ذمہ داریاں پوری کیں۔
ٹی وی چینلز کے کیمروں کی عدم موجودگی میں ہاتھ میں موبائل تھامے لوگوں کے ذریعے ہم نے وہاں کی روداد سنی۔ لیکن اس بار سامنے آنے والے واقعات میں خواتین سب سے آگے نظر آرہی ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ متحرک نوجوان، تعلیم یافتہ خواتین تحریک کی قیادت کررہی ہیں۔ چند ماہ قبل اسلام آباد کی جانب مارچ کے بعد سے ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین کو ہر گھر جاننے لگا ہے۔
سخت سردی کے ان دنوں میں ہم نے ریاستی ہتھکنڈوں کا استعمال خواتین پر ہوتے دیکھا جنہیں حراست میں لیا گیا اور انہیں جبری طور پر دارالحکومت سے نکالنے کی کوششیں کی گئیں۔ اسلام آباد کے وہ مناظر اور جو کچھ اتوار کو ہم نے دیکھا، انہوں نےظاہر کیا کہ عوام بالخصوص خواتین کو نظرانداز کیا جارہا ہے جوکہ اپنی سماجی حدود کو وسعت دے کر سیاسی طور پر متحرک ہورہی ہیں۔
ایسی صورت حال پاکستان کے مختلف حصوں میں پائی جاتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بلوچ عوام کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اپنایا جارہا ہے۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ماہ رنگ، سمی اور دیگر آخر کیوں مجبور ہوئیں کہ وہ مظاہرے کرنے سڑکوں پر نکل آئیں۔ خواتین کی جدوجہد کے باوجود ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں ہم نے دیکھا کہ سیاست میں سرگرم خواتین کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ملک کے زیادہ مراعات یافتہ علاقے کہ جہاں کبھی سیاسی جبر صرف اعلیٰ درجے کی خواتین رہنماؤں جیسے بے نظیر بھٹو، مریم نواز کو دبانے تک محدود تھا، لیکن اب نہ صرف دیگر خواتین رہنما بلکہ عام کارکنان اور مظاہرین تک پھیل چکا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خواتین رہنماؤں پر قید و بند کی سختیوں سے خواتین پر جبر نئی پست سطح تک آگیا ہے۔
یاسمین راشد، عمر اور خراب صحت کے باوجود جیل میں ہیں جبکہ عالیہ حمزہ کی خرابی صحت کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ خدیجہ شاہ اور صنم جاوید نے تو محض مظاہروں میں شرکت کی تھی لیکن اب وہ سیاسی منظرنامے میں اپنا نام بنا چکی ہیں۔ اس سے پہلے کوئی 9 مئی کے واقعے کا حوالے دے، یہ بات اہم ہے کہ ان خواتین کی کسی بھی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔
اب نوجوان خواتین کو بھی پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا جارہا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ گویا ریاست کے اقدامات صرف پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے نوجوان لڑکوں تک محدود نہیں اور محدود بھی کیوں ہو کہ جب خواتین بھی مردوں کی طرح سوشل میڈیا کا بہترین استعمال کررہی ہیں؟
اس سے قبل جب پی ٹی آئی کے دورِحکومت میں پشتون تحفظ موومنٹ پہلی بار منظرنامے پر اُبھری تو ثنا اعجاز اور گلالائی اسمعٰیل کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
بیشتر خواتین تعلیم یافتہ ہیں جن کا اپنے متعلقہ پروفیشن میں ایک کامیاب کریئر ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے حق کے لیے سیاسی اور سماجی منظرنامے میں متحرک ہورہی ہیں۔ جب ایسی خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس سے ایسی خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جو اپنے والدین کی ہچکچاہٹ کے باوجود اپنے گھروں سے باہر نکل کر اپنے خواب پورے کرنا چاہتی ہیں۔ لگتا ہے کہ ریاست اپنے اقدامات کے اثرات سے باخوبی واقف ہے۔
ریاست اور معاشرہ کبھی بھی اس بات سے خوش نہیں کہ خواتین اپنے فیصلے اپنے ہاتھ میں لیں یا اظہارِ رائے کریں۔ اگر خواتین زیادہ سے زیادہ سیاسی طور پر متحرک ہوں گی تو ریاست کو اس حوالے سے کچھ کرنا ہوگا۔ خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ اس معاملے کو کسی سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا ونگ تک محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ معاملہ اس سے بالاتر ہے۔ خواتین کے دیگر مسائل بھی تیزی سے اجاگر ہورہے ہیں جوکہ نشاندہی کرتے ہیں کہ معاشرے میں خواتین کے لیے نفرت میں کس قدر اضافہ ہورہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک معروف میزبان جو پہلے اپنے ثقافتی نظریات کی وجہ سے جانے جاتے تھے، نے بتایا کہ وہ یہ کیوں مانتے ہیں کہ تمام خواتین کو نیوز چینل میں نوکری ملنی چاہیے جبکہ ایک اور ’صحافی‘ نے اپنے ولاگ میں سیاست دان کی اہلیہ کے سر اس کا سہرا سجایا۔
اقتدار میں بیٹھے لوگ اپنی مرضی سے چند ہی معاملات پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ ایسے معاملات کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے مفادات کے تحت ہوں جبکہ دیگر کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ دعوے بھی کیے گئے تھے کہ پیکا اور پنجاب میں ہتک عزت کا قانون نافذ کرنے کے لیے خواتین کے تحفظ کو ایک اہم وجہ بتایا گیا تھا۔
ان قوانین کے نفاذ کے بعد سے خواتین کو زیادہ تحفظ فراہم نہیں کیا گیا لیکن پھر وہی بات ہے کہ ان کے تحفظ کو ہماری ریاست نے کبھی بھی اہمیت دی ہی نہیں۔ ریاست کے خلاف آواز اٹھانے والی اور متحرک ہونے کی کوشش کرنے والی خواتین کا مقدر ایک جیسا ہوتا ہے پھر چاہے وہ ماہ رنگ اور سمی ہوں یا عالیہ اور ایمان مزاری۔
ان میں سے کچھ خواتین اپنے سماجی طبقے اور حیثیت کی وجہ سے زیادہ مراعات یافتہ ہیں جبکہ کچھ کی بڑے پیمانے پر پذیرائی بھی کی جاتی ہے۔ لیکن ان خواتین کے سیاسی منظرنامے پر متحرک ہونے سے جو پیغام سامنے آرہا ہے وہ ایک ہی ہے۔ جو خواتین جرات کرتی ہیں، ان کی کاوشوں کا خیرمقدم نہیں کیا جاتا بلکہ ان میں سے کچھ کو ایسی سزا دی جاتی ہے کہ وہ دیگر کے لیے نشانِ عبرت بن جائیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں گزشتہ روز بلآخر سپریم کورٹ نے ارشد شریف کیس کی سماعت کی۔ وکلا بینچ کے سامنے پیش ہوئے لیکن ان کی آوازوں کے ساتھ کمرہ عدالت میں بدلوں کی گرج بھی سنائی دی جوکہ پوری سماعت کے دوران اسلام آباد پر چھائے رہے۔
ان کے قتل کو دو سال ہونے والے ہیں جبکہ آخری بار ان کے کیس کی سماعت ایک سال قبل ہوئی تھی۔ ایک سال بعد سماعت ہونے کے باوجود ابتدا میں ہی ججز مصروف نظر آئے کہ بینچ میں کتنے ججز کو شامل کرنا چاہیے جبکہ حکومت دعویٰ کرتی نظر آئی کہ وہ ابھی کینیا سے معلومات حاصل کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کررہی ہے۔ اس دوران وہ ان معلومات اور شواہد کو نظرانداز کیے ہوئے ہیں کہ آخر وہ پاکستان چھوڑ کر ہی کیوں گئے۔
کسی کو توقع نہیں کہ ریاست اور اس کے ماتحت متعلقہ ادارے ارشد شریف کی موت کے حوالے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے لیکن مجھے تجسس ہے کہ کیا انہیں یہ علم بھی ہے کہ اس حوالے سے عوام کیا آرا رکھتی ہیں اور ان آرا نے ریاست کے ساتھ ان کے تعلقات کو کس طرح متاثر کیا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔