غزہ میں اب تک 92ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، امریکی ڈاکٹرز
غزہ میں اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائی کے بعد سے رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرنے والے امریکی ڈاکٹرز اور نرسوں کے گروپ نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ میں شہید ہونے والوں کی تعداد 92ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری سے اب تک کم از کم 39 ہزار 300 سے زائد افراد شہید اور 70 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں افراد لاپتا ہیں تاہم اب امریکی ڈاکٹرز نے انکشاف کیا ہے کہ شہید ہونے والوں کی تعداد 92 ہزار سے بھی زائد ہو سکتی ہے۔
گزشتہ اکتوبر سے غزہ میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے 45 امریکی ڈاکٹروں، سرجنوں اور نرسوں نے امریکی صدر جو بائیڈن، ان کی اہلیہ جل بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کو خط لکھا کر کہا ہے کہ شہید ہونے والوں کی تعداد وزارت صحت کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جنگ میں شہید ہونے والوں کی ممکنہ تعداد 92ہزار سے زائد ہے جو غزہ کی مجموعی آبادی کا 4.2 فیصد بنتا ہے۔
انہوں نے خط میں کہا کہ جنگ بندی کا لازمی طور پر نفاذ ہونا چاہیے، ہمیں یقین ہے کہ ہماری حکومت امریکی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون دونوں کے تحت ایسا کرنے کی پابند ہے۔
خط میں کہا گیا کہ غزہ میں ہر کوئی بیمار یا زخمی ہے، عملی طور پر پانچ سال سے کم عمر کا ہر بچہ کھانسی اور ڈائریا دونوں کا شکار ہیں، غزہ میں حاملہ خواتین کم وزن کے بچوں کو جنم دے رہی ہیں لیکن غذائیت کی کمی کی وجہ سے دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں غذائیت کی کمی کا شکار مائیں اپنے کم وزن والے ان نوزائیدہ بچوں کو زہریلے پانی سے تیار کردہ فارمولا پلاتی ہیں، ہم کبھی نہیں بھول سکتے کہ دنیا نے ان معصوم عورتوں اور بچوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔
طبی ماہرین نے امریکی قیادت پر زور دیا کہ وہ اس بات کا ادراک کرے کہ غزہ میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں، ہمیں فکر ہے کہ نامعلوم ہزاروں افراد پہلے ہی غذائی قلت اور بیماری کے مہلک امتزاج سے مر چکے ہیں اور آنے والے مہینوں میں مزید دسیوں ہزار مر جائیں گے اور ان میں سے زیادہ تر چھوٹے بچے ہوں گے۔
یہ کھلا خط 25 جولائی کو کیلیفورنیا میں مقیم سرجن فیروز سدھوا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک پر پوسٹ کیا تھا۔
خط میں ڈاکٹرز نے تکلیف دہ انکشاف کہ اس دوران ہم میں سے ہر ڈاکٹر نے روزانہ کی بنیاد پر ایسے بچوں کا علاج کیا جن کو سر اور سینے میں گولی لگی تھی۔
انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ کیوں کوئی ایسے ملک کو مسلح کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا جو جان بوجھ کر ان بچوں کو مار رہا ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے صحت کی دیکھ بھال کے نصف سے زیادہ وسائل کو تباہ کر دیا ہے اور ہر 40 میں سے محکمہ صحت کے کارکن کو ہلاک کر دیا ہے۔
طبی ماہرین نے صدر بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی فوجی، اقتصادی اور سفارتی حمایت ترک کردیں۔
اپنے خط میں ان ڈاکٹرز نے لکھا کہ جب جب ہم ہر دن اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتے ہیں تو اس دن ہمارے بموں سے خواتین کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں اور بچے ہماری گولیوں سے مارے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس وقت فلسطینی نژاد کسی بھی ڈاکٹر حتی کے امریکی شہریوں کو بھی غزہ میں کام کرنے سے روک رہا ہے۔
اسرائیل پر عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا اور اسرائیل نے صرف جنگ کے ابتدائی 4ماہ کے دوران اب تک غزہ پر 18.5 ارب ڈالر مالیت کی بمباری کی ہے جو غزہ اور مغربی کنارے کی 2022 کی مشترکہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔