9 مئی: عمران خان کی 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پر سماعت ملتوی
لاہور ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی 9 مئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پر سماعت ملتوی کردی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا غیر قانونی ریمانڈ دیا، ریمانڈ کےلیے جو طریقہ کار اپنایا گیا وہ غیر قانونی ہے۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دیا کہ آپ کیس کے بنیادی حقائق بیان کریں ، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ کیس کے بنیادی حقائق یہ ہیں کہ 9 مئی کو درخواست گزار اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے بائیو میٹرک روم سے غیر قانونی طور پر درخواست گزار کو اغوا کیا گیا۔
وکیل سلمان صفدر نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس وقت عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دی تھی، 9 مئی سے 12 مئی تک درخواست گزار کا رابطہ دنیا سے منقطع تھا، بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری پر عوام کا ردعمل آیا جس سے عمران خان بالکل لاعلم تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو علم میں ہے گرفتاری پر کیا کچھ ہوا ہے؟ عمران خان کو جیسے ہی 9 مئی کے واقعات کا علم ہوا تو فوری مذمت کی اور مایوسی کا اظہار کیا۔
اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ 9 مئی کے بعد عمران خان پر کتنے کیسز رجسٹرڈ ہوئے؟
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 9 مئی کے بعد 37 مقدمات درج ہوئے ہیں، لاہور کے 18 کیسز تھے جن میں 7 میں عمران خان نامزد ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میرے 300 وکالت نامے تھے وہ ختم ہوچکے ہیں، اب مجھے پتا نہیں ہے کہ اور کتنے وکالت نامے چاہیے ہوں گے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ یہ بتائیے کہ پورے پنجاب میں کتنے کیسز میں عمران خان نامزد ہیں اور کتنوں میں سپلیمنٹری بیان کے ذریعے نامزد کیا گیا؟ یہ بتائیے کہ کتنے کیسز میں عمران خان کی گرفتاری ڈالی جا چکی ہے۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ کتنے کیسز کے مکمل چالان جمع ہوئے اور کتنے کیسز کے چالان نامکمل ہیں؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق 20 کیسز میں ضمنی بیانات کے ذریعے نامزد کیا گیا ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اب تو یہ 37 سے بھی آگے جاچکے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے مزید کہا کہ 12 مقدمات میں عمران خان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا، ان میں سے 3 مقدمات میں عبوری ضمانتیں خارج ہوئی ہیں، باقی 9 کیسز کبھی سامنے ہی نہیں لائے گئے اور نا ہم نے ان مقدمات میں ضمانت کرائی، 14 ماہ تک ان 9 کیسز میں گرفتاری ڈالی ہی نہیں گئی، 14 ماہ بعد 9 کیسز میں گرفتاری ڈالی گئی جو کبھی ظاہر ہی نہیں کیے گئے ، یہ سب کچھ ہمارے لیے حیران کن ہے۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے دریافت کیا کہ یہ بتائیے کہ درخواست گزار آپ کے پاس 14 ماہ سے ہے اب تک شامل تفتیش کرنے یا نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بتایا کہ ان کیسز میں جیسے جیسے شواہد سامنے آتے رہیں لوگوں کے بیانات ہوتے رہے، اس حساب سے گرفتاری ڈالی گئی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کیا یہ کیسز ساری زندگی چلتے رہیں گے؟ جسٹس انوار الحق پنوں کا کہنا تھا کہ جن کیسز میں ابھی ریمانڈ لیا گیا ہے ان میں تو پہلے ہی ملزم شامل تفتیش ہوچکا ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ یہ بتائیے کہ 37 مقدمات میں ایک ہی نوعیت کے الزام ہیں تو پھر بار بار تفتیش کی کیا ضرورت ہے؟
اس موقع پر عمران خان کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعد ازاں پراسیکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا کیس عدالت کے سامنے آیا ہے کہ حالات واقعات کے باعث ویڈیو لنک پر ملزم کو لایا گیا، ویڈیو لنک پر بھارتی عدالت نے رولز بنائے ہیں، ملزم کے وکیل نے خود عمران خان کو ویڈیو لنک پر عدالتوں میں پیش کرنے کی درخواست دی ہے۔
بعد قازاں عدالت نے عمران کان پر درج مقدمات سے متعلق پراسیکیوٹر جنرل سے تفصیلی رپورٹ کرلی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ کتنے مقدمات کا چالان جمع ہوچکا ہے وہ تفصیلات بھی جمع کروائی جائیں؟ یہ بھی بتائیں کہ کتنے مقدمات میں عمران خان نامزد ہیں اور کتنے مقدمات میں بیان کی روشنی میں نامزد کیا گیا ہے؟
مزید ریمارکس دیے کی تمام تفصیلات تفصیلی رپورٹ کی صورت میں عدالت جمع کروائی جائے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 23 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) و سابق وزیراعظم عمران خان کی 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواستوں پر پراسکیوشن سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔
یاد رہے کہ 20 جولائی کو بانی تحریک انصاف عمران خان کی 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ دینے کے انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردی گئی تھیں۔
درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور اے ٹی سی نے جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا، جیل میں قید ہوں اور پولیس پہلے بھی تفتیش کر چکی ہے۔
درخواستوں میں مزید کہا گیا تھا کہ جسمانی ریمانڈ دیتے وقت قانون کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا، لہٰذا لاہور ہائی کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ اے ٹی سی کی جانب سے 12 مقدمات میں دیا گیا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دے۔
یاد رہے کہ 15 جولائی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس کی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے بارہ مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر 10 روزہ ریمانڈ دے دیا تھا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج خالد ارشد نے درخواست پر سماعت کی تھی۔
اس سے ایک روز قبل لاہور پولیس نے اڈیالا جیل جاکر 9 مئی کے 12 مقدمات میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری ڈالی تھی، جس کے بعد 5 جولائی کو عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔