• KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:13pm
  • LHR: Maghrib 5:07pm Isha 6:34pm
  • ISB: Maghrib 5:07pm Isha 6:36pm
  • KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:13pm
  • LHR: Maghrib 5:07pm Isha 6:34pm
  • ISB: Maghrib 5:07pm Isha 6:36pm

حکومت نے اصولی طور پر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا، وفاقی وزیراطلاعات

شائع July 24, 2024
فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت نے اصولی طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جس بات کو بہت سے لوگ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے اعتراف جرم کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اس تناظر میں حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کی کوششیں زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔

ایک روز قبل میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کی کال دی تھی۔

تاہم عمران خان کی قانونی ٹیم اور پارٹی ترجمانوں کو یہ واضح کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ ان کا مطلب ایک ’پرامن احتجاج‘ تھا۔

دوسری جانب، پی ٹی آئی کے مخالفین نے عمران خان کے اس بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ حکومت نے اصولی طور پر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے جیو نیوز پر ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ہم نے اصولی طور پر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن پابندی لگانے کے لیے (حکومتی اتحادیوں کے درمیان) وسیع تر اتفاق رائے کا انتظار کر رہے ہیں۔

اس سے قبل حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اپوزیشن جماعت پر پابندی کے فیصلے کے حوالے سے حکمران اتحادیوں میں مشاورت جاری ہے۔

لیکن اب، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے بھی 12 جولائی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جس میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی گئی تھیں اور اسے پارلیمانی پارٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

نظرثانی درخواست

پی پی پی نے سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک کے ذریعے نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی، پارٹی آرٹیکل 51 (ڈی)، (ای) اور آرٹیکل 106 سے متعلق سپریم کورٹ کی اس تشریح سے ناراض دکھائی دیتی ہے کہ جس میں یہ کہا گیا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے، جس نے 8 فروری کے عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں حاصل کیں۔

اس سے قبل 15 جولائی کو مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کی تھی جس میں فل بینچ سے استدعا کی گئی کہ آئین کی تشریح کرنے کے بجائے قانون سازی کے دائرہ کار میں داخل ہوں۔

مسلم لیگ (ن) کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی تین خواتین ارکان نے بھی نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

پی پی پی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پی ٹی آئی نے نہ تو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں کوئی کیس دائر کیا، نہ ہی پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) یا سپریم کورٹ میں، اس لیے وہ کسی ریلیف کا حقدار نہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر 12 جولائی کو سنائے گئے مختصر حکم نامے کے مطابق، 41 امیدواروں کو کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے 15 دن کا وقت دیا گیا تھا حالانکہ انہوں نے ای سی پی کی جانب سے جمع کرائی گئی فہرست کے ایک کالم میں بھی پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر نہیں کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ مختصر حکم الیکشن رولز، 2017 کے قاعدہ 92 (6) کے خلاف ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک بار ایک آزاد امیدوار نے کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تو اسے واپس بلانے یا منسوخ کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔

درخواست میں مزید مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئین اور واضح ہے، آزاد امیدواروں کی شمولیت تین دن میں ہی ہوسکتی، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر عدالت نے فریقین کے دلائل بھی نہیں سنے، سپریم کورٹ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

واضح رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بتایا کہ فیصلہ 8/5 کے تناسب سے دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلہ دیا۔

جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی۔

کیس کا پس منظر

6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 27 دسمبر 2024
کارٹون : 26 دسمبر 2024