• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

سکھر بیراج کا تباہ شدہ ایک گیٹ تبدیل کر دیا گیا

شائع July 23, 2024
سکھر بیراج: فائل فوٹو
سکھر بیراج: فائل فوٹو

سکھر بیراج پر نصب ایک نیا گیٹ اس وقت آزمائشی طور پر کام کر رہا ہے اور یہ عمل تسلی بخش طریقے سے مکمل ہونے کے بعد سندھ آبپاشی حکام کی جانب سے سندھ کے پانی کے بہاؤ کے لیے اسے کھول دیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 20 جون کو پانی کے بہاؤ کی وجہ سے گیٹ کا بالائی حصہ بہہ جانے کے بعد کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس (کے ایس اینڈ ای ڈبلیو) کے تیار کردہ گیٹ 47 کو حصوں میں ہنگامی بنیادوں پر نصب کیا گیا تھا۔

6 دیگر دروازوں کو نقصان

تباہ شدہ دروازوں کی تبدیلی یا مرمت کے بعد ہی رائٹ بینک کنالز بشمول بلوچستان کو پانی فراہم کرنے والی کنالز کی سپلائی معمول پر لائی جائے گی۔

آبپاشی کے سیکریٹری ظریف اقبال کھیرو نے کہا کہ ہم گیٹ 47 کی جانچ کر رہے ہیں، ہم نے وزیر آبپاشی جام خان شورو کی موجودگی میں گیٹ کو اوپر اٹھانے اور نیچے کرنے کے عمل کو چیک کیا، پھر بھی، یہ آزمائشی طور پر چل رہا ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ کیسن گیٹ اپ اسٹریم اور کوفرڈم ڈاؤن اسٹریم گیٹ-47 کو ابھی تک نہیں ہٹایا گیا ہے۔

جون کے چوتھے ہفتے میں گیٹ 47 کے بقیہ حصے کو ہٹانے کے لیے کیسن گیٹ اور کوفرڈیم فراہم کیے گئے تھے، کے ایس اینڈ ای ڈبلیو نے 20 جولائی تک نئے گیٹ کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔

دیگر گیٹوں کو پہنچنے والے نقصان کے پیش نظر انجینئرز نے گیٹ 44 کو تبدیل کرنے کے امکان پر بھی تبادلہ خیال کیا جو 20 جون کو بری طرح متاثر ہوا تھا۔

حکام کا خیال ہے کہ گیٹ 44 کو تبدیل کرنے کے لیے تین گیٹوں کی ضرورت ہوگی جن میں سے ہر ایک کو اس کے دائیں اور بائیں جانب زیرو لیول پر لایا جائے گا، اس کے علاوہ ڈاون اسٹریم گیٹ 44 بنانے کے لیے ایک کوفرڈیم کی بھی ضرورت ہے۔

اس تجویز پر سندھ بیراج امپروومنٹ پروگرام (ایس بی آئی پی) کے تحت بیراج پر کام کرنے والی ایک فرم کے چینی انجینئرز کے علاوہ ایک برطانوی ماہر سمیت غیر ملکی ماہرین سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے، یہ ابھی زیر بحث ہے۔

ظریف اقبال کھیرو نے کہا کہ کے ایس اینڈ ای ڈبلیو نے 20 جون کو خراب ہونے والے گیٹ 44 کو تبدیل کرنے کے لیے پہلے ہی گیٹ 44 کی تیاری شروع کر دی۔

ایس بی آئی پی پروجیکٹ کے سربراہ محی الدین مغل کے مطابق گیٹ 47 کا وزن 50 ٹن کے قریب ہے جب کہ اس سے قبل اس کا وزن 45 ٹن تھا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اسی طرح، پرانے گیٹ کے ساتھ کاؤنٹر ویٹ کا وزن 80 ٹن تھا، چونکہ نئے گیٹ کا وزن بڑھ کر 50 ٹن ہو گیا ہے تو اس کے مطابق کاؤنٹر ویٹ کا وزن بھی 80 ٹن سے بڑھا کر 90 ٹن کر دیا گیا ہے۔

پچھلے مہینے تبدیل کیا گیا گیٹ 36 پہلے ہی چینی فرم کے زیرِ آزمائش ہے۔

ایس بی آئی پی کے سربراہ نے کہا کہ گزشتہ سال کے اوائل تک 6 گیٹ (31، 33، 34، 35، 39 اور 40)کے ایس اینڈ ای ڈبلیو کی طرف سے تیار اور نصب کیے گئے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ گیٹ-47 کو دوبارہ پروجیکٹ کے تحت تبدیل کیا جائے گا۔

منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں 17 گیٹس کی تبدیلی کا عمل دسمبر میں شروع ہو گا اور امکان ہے کہ اگلے سال مئی سے جون تک مکمل ہو جائے گا۔

دروازوں کو پہنچنے والے نقصانات نے حکام کو بیراج کو ہر ممکن حد تک محفوظ طریقے سے چلانے کو یقینی بنانے پر مجبور کیا ہے اور انہیں تالاب کی سطح کو محفوظ حدود میں رکھنے پر مجبور کیا ہے، تاہم اس سے بلوچستان اور سندھ کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔

سکھر بیراج گڈو بیراج کے علاوہ بلوچستان کو آبپاشی کا پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے، بیراج کی دائیں طرف کی نارتھ ویسٹرن کینال (این ڈبلیو سی) بلوچستان کو پانی فراہم کرتی ہے۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ایک وفد نے اس کے چیئرمین عبدالحمید مینگل کی قیادت میں 8 جولائی کو بیراج کا دورہ کیا اور بیراج کے حکام کے ساتھ میٹنگ کی تاکہ بیراج پر دستیاب پانی سے بلوچستان کا ایک تہائی حصہ حاصل کیا جا سکے۔

این ڈبلیو سی سمیت دائیں طرف کی کنالز کو پانی دینے کے لیے تالاب کی ایک مخصوص سطح حاصل کی گئی تھی لیکن سندھ کے آبپاشی حکام، 20 جون کے واقعے کے بعد سے بیراج کے دروازوں پر کسی دباؤ سے بچنے کے لیے تالاب کی سطح کو احتیاط سے برقرار رکھے ہوئے تھے۔

ارسا نے دعویٰ کیا تھا کہ سکھر بیراج کے چیف انجینئر نے تالاب کو مطلوبہ سطح پر بلند کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم، سی ای منصور میمن نے اس دعوے کی تردید کی کہ انہوں نے دروازوں پر لکڑی کے تختے لگا کر تالاب کی سطح کو 199 سے اوپر یقینی بنانے کا وعدہ کیا تھا، فی الحال 198 یا 199 کی سطح کو برقرار رکھا جا رہا ہے۔

نقصان کی انکوائری

20 جون کو ہونے والے نقصانات کی انکوائری سیکریٹری آبپاشی کی طرف سے مقرر کردہ ٹیکنیکل انکوائری ٹیم نے ابھی تک مکمل نہیں کی ہے۔

ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی کارروائی کی ہے لیکن وہ ابھی تک اپنے نتائج اور سفارشات سامنے نہیں لائے، تب سے سکھر بیراج کے چیف انجینئر سہیل حمید بلوچ، سپرنٹنڈنگ انجینئر فیاض شاہ، ایگزیکٹو انجینئر علی شاہ اور اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر امیر بخش مہر کو ہٹا دیا گیا تھا، اس وقت منصور میمن چیف انجینئر ڈویلپمنٹ ریجن-I سکھر بیراج کے چیف انجینئر کے دفتر کا چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024