بنوں جرگہ میں عمائدین کا آپریشن عزم استحکام پر تحفظات کا اظہار
بنوں جرگہ ممبران نے آپریشن عزم استحکام سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے سامنے 16 مطالبات رکھ دیے، وزیراعلی خیبرپختونخوا نے جرگہ کے تمام مطالبات سے اتفاق کرتے ہوئے اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلانے کا اشارہ دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلٰی ہاؤس میں بنوں عمائدین اور حکومت کے درمیان جرگہ اختتام پذیر ہوگیا، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی زیر صدارت جرگہ میں بنوں سے 40 عمائدین نے شرکت کی۔
جرگہ میں عمائدین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بنوں سمیت جنوبی اضلاع میں امن امان کے لئے حکومت سخت اقدامات اُٹھائے جائیں۔
ضلع میں ایک امن ریلی کے دوران تشدد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے صوبائی حکومت اور عمائدین کے درمیان ہونے والا جرگے میں دونوں فریقین نے بنیادی طور پر تمام نکات پر اتفاق کیا۔
ایک روز قبل، مقامی عمائدین اور مظاہرین کے نمائندوں پر مشتمل جرگے نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ اپنی میٹنگ میں 16 مطالبات پیش کیے تھے، جنہیں بعد میں کے پی حکومت کو بھجوا دیا گیا تھا۔
اپنے مطالبات میں، جرگے نے ہتھیار ڈالنے والے طالبان عسکریت پسندوں کے مراکز کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گشت کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
’اچھے طالبان‘ گروپوں کی موجودگی ایک متنازعہ موضوع بن گیا ہے اور مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہے اور یہ خیبرپختونخوا اور مرکز دونوں میں حکومت کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے اپیکس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ کچھ مسلح افراد خود کو سرکاری اہلکار ظاہر کررہے ہیں یا سرکاری اداروں کی نمائندگی کا دعویٰ کر تے ہیں، وہ علاقے میں گھوم رہے ہیں اورحکومتی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے فورم کو یہ بھی بتایا گیا کہ صوبے کے عوام، پولیس اور حکومت کو اس پر شدید تحفظات ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپخونخوا نے کہا کہ انہوں نے پولیس کو ایسے افراد کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
عزم استحکام پر تحفظات
عمائدین نے کہا کہ وہ صوبے میں بالعموم اور بنوں میں خاص طور پر آپریشن عزم استحکام کو قبول نہیں کریں گے، انہوں نے پولیس سے رات گئے گشت بڑھانے اور کسی بھی سیکیورٹی ایجنسی کے دباؤ کے بغیر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
جرگے کے شرکا نے درخواست کی کہ گھروں اور مداس میں تلاشی کا کام فوج کے بجائے پولیس اور اس کے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی طرف سے کی جائے۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سی ٹی ڈی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس کے وسائل اور نفری میں بھی اضافہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ انہوں نے جمعہ خان روڈ اور برما شیل پوائنٹ کو ٹریفک کے لیے کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔
جرگے نے حکومتی حکام سے یہ بھی کہا کہ تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے، اس کے علاوہ جرگے نے سی ٹی ڈی سے مطالبہ کیا کہ وہ ’اچھے اور برے طالبان‘ کے خلاف کسی ایجنسی کی مداخلت کے بغیر کارروائی کرے۔
انہوں نے مشترکہ فوجی ہسپتالوں میں زخمی پولیس اہلکاروں کے علاج اور مقامی قدرتی وسائل بالخصوص گیس اور معدنیات میں واجب الادا حصہ کا مطالبہ کیا۔
اس کے علاوہ جرگہ نے انٹرنیٹ، موبائل فون سروسز کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا، ایک مطالبے میں کہا گیا کہ ’گذشتہ ماہ ملٹری انٹیلی جنس اور پولیس کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے معطل کیے گئے پولیس اہلکاروں کو بحال کیا جائے‘۔
عمائدین نے بنوں چھاؤنی میں حالیہ دہشت گردانہ حملے کے دوران 3 شہید شہریوں کی ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔