• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

پاکستان میں ڈیجیٹل ’فائروال‘ کے نفاذ کی قیاس آرائیاں، یہ آخر ہے کیا؟

شائع July 22, 2024
—السٹریشن: سارہ درانی
—السٹریشن: سارہ درانی

رواں سال 2024ء کے آغاز سے پاکستان میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ دیکھا گیا ہے جہاں اب تک 8 صحافی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ صرف مئی کے مہینے میں 4 صحافیوں کو قتل کیا گیا جوکہ صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی ( سی پی جے) کے مطابق 1992ء کے بعد سے صرف ایک ماہ میں قتل کیے جانے والے صحافیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ایک مثالی دنیا میں ایسے افسوس ناک سنگِ میل کی وجہ سے ملک میں پالیسی سازوں کو سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ تاہم پاکستان میں موضوعِ بحث یہ نہیں کہ لوگوں کو معلومات پہنچانے والوں کو تحفظ کیسے فراہم کیا جائے بلکہ یہاں تو معلومات فراہمی کے ذرائع پر ہی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔

یہاں ہم چین کی ’گریٹ فائر وال‘ کی طرز کے ایک نظام کے پاکستان میں نفاذ کی بات کررہے ہیں جوکہ تمام آن لائن ٹریفک کی نگرانی کرے گا۔

اس فائروال (آن لائن معلومات کی فراہمی میں رکاوٹیں) کے حوالے سے تفصیلات کو تو راز رکھا گیا ہے اور اس معاملے پر حکام اپنا مؤقف دینے سے انکاری ہیں اور عوام کو محدود ڈیٹا فراہم کیا جا رہا ہے۔ تو اس نظام کے طرزِ فعالیت کے حوالے سے معلومات انتہائی کم ہیں۔

ڈیجیٹل سیکیورٹی کی ماہر فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ رازداری کی وجہ سے اس معاملے کے حوالے سے مبہم خیالات اور قیاس آرائیاں گردش کررہی ہیں۔ وہ ڈان کو بتاتی ہیں، ’جہاں تک میرا خیال ہے، یہ بالکل چینی فائروال جیسا نہیں بلکہ اس سے کچھ مختلف ہے‘۔

متنازع مواد حذف

متعدد نیوز رپورٹس کے مطابق یہ فائروال ڈیپ پیکٹ انسپیکشن (ڈی پی آئی) کو استعمال کرے گا اور آئی پی لیول کی بلاکنگ کرے گا۔ ڈی پی آئی آن لائن ڈیٹا پیکٹ کے ذریعے متنازع مواد کی نگرانی کرسکتا ہے اور جیسے ہی ایسا کوئی مواد ملے گا وہ اس متنازع مواد کو بھیجنے والے کا آئی پی ایڈریس بھی ٹریک کرلے گا۔ اس سے حکام کو اس مقام کو تعین کرنے میں مدد ملے گی کہ جہاں یہ متنازع مواد بنایا اور پھیلایا گیا۔

اس ٹیکنالوجی سے متنازع مواد بنانے والے کا آئی پی ایڈریس بھی ٹریک کیا جاسکے گا
اس ٹیکنالوجی سے متنازع مواد بنانے والے کا آئی پی ایڈریس بھی ٹریک کیا جاسکے گا

لیکن مختلف ممالک کے اعتبار سے مواد کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئے گی کہ جسے متنازع سمجھا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی یافتہ معاشروں میں ایسی ٹیکنالوجی کو استعمال سنگین جرائم جیسے چائلڈ پورنوگرافی کی روک تھام کے لیے ہوتا ہے۔ پاکستان میں ممکنہ طور پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال ’ریاست مخالف جذبات‘ کو دبانے کے لیے ہوگا۔

فریحہ عزیز کہتی ہیں، ’ہمیں مزید معلومات سامنے آنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے، اس اقدام سے عام پاکستانی پر مزید سینسر شپ کا اطلاق ہوگا‘۔

پالیسی سازی اور وی پی این کا استعمال

پاکستان میں انسانی حقوق پر اس تازہ ترین حملے پر کسی کو تعجب نہیں ہوا۔ آخرکار ہمارا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے کہ جس کی ’قومی سلامتی‘ کے نام پر انسانی حقوق کی پامالی کی طویل تاریِخ ہے۔

البتہ ڈیجیٹل دنیا کے حوالے سے ہماری پالیسی سازوں کی کم علمی حیران کُن ضرور ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر حالیہ پابندی بہترین مثال ہے۔

ملک میں ایکس کی رسائی محدود کیے جانے کے باوجود بہت سے عام شہری اور تقریباً تمام حکومتی عہدیدران ورچول پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کررہے ہیں۔ اس سے واضح طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی لگانے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔

وی پی این کے استعمال میں ملک بھر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے
وی پی این کے استعمال میں ملک بھر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے

پابندی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر وی پی این کی خدمات فراہم کرنے والوں کے کاروبار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ فوربز کی رپورٹ کے مطابق اس پابندی کے بعد سے پاکستان میں وی پی این سروسز کے استعمال میں 100 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ کچھ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں وی پی این کے نئے صارفین کی تعداد میں 400 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

اس طرح کی پابندیوں کا المناک پہلو یہ ہے کہ انہیں عمومی طور پر ملک کے اعلیٰ شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ماہرین کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

اب اس میں ڈاکٹر عمر سیف کی ہی مثال لے لیں جوکہ سابق نگران وزیر برائے آئی ٹی رہ چکے ہیں، انہوں نے نومبر 2022ء کو ملکی سطح پر ایکس کی پابندی کی حمایت کی۔ ستم ظریفی یہ کہ ایکس کی بندش کی بات ڈاکٹر عمر سیف نے ایکس پر پوسٹ کرکے کی کہ جس میں انہوں نے کہا کہ ’ٹوئٹر (ایکس) پاکستان کے 3.5 فیصد سے بھی کم صارفین استعمال کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر اس کا استعمال مخصوص سیاسی جماعتوں کو ٹرول کرنے کے لیے کرتے ہیں‘۔

پابندیوں کا توڑ

براڈکاسٹ صحافی فیصل چوہدری جو عسکریت پسندی سے متعلق امور کور کرتے ہیں وہ معمول کی بنیاد پر وی پی این کا استعمال کرکے پابندی لگائی گئی ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا حوالے دیتے ہوئے اتفاق کیا کہ ممکنہ طور پر فائروال منصوبے کا مقصد مخصوص سیاسی جماعت کے کارکنان کو نشانہ بنانا ہے۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ، ’جبری گمشدگیوں جیسے انسانی حقوق کے مظالم کے خلاف وکالت کرنے والے اس فائروال کی زد میں آئیں گے‘۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ وی پی این صارفین تمام تر پابندیوں کے باوجود ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کرلیں گے۔

فائروال سے معلومات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی جاسکتی ہیں اور اس پر نگرانی رکھی جاسکتی ہے
فائروال سے معلومات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی جاسکتی ہیں اور اس پر نگرانی رکھی جاسکتی ہے

اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے ڈان نے وی پی این سروس مہیا کرنے والے تین نمایاں ناموں سے رابطہ کیا۔

نورڈ وی پی این نے ہمیں بتایا کہ اس طرح کی فائر والز کی تاثیر متضاد ہوتی ہے اور انہوں نے اسے ’ہٹ اینڈ مس‘ کہا۔ ایکسپریس وی پی این کے ترجمان نے اختراعی اور مفت انٹرنیٹ تک صارف کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے جاری کوششوں پر زور دیا۔ پروٹون وی پی این نے ردعمل دیا کہ اگر کوئی فائروال بنا لی جاتی ہے تو اپنی سروسز کو اسی کے مطابق مزید بہتر بنائیں گے۔

ان بیانات کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ضروری نہیں کہ ہم آئی ٹی کے ماہر ہوں۔ سنسر شپ پر لگائی جانے والی کسی بھی ممکنہ ضرب پر قابو پانے کے لیے پیڈ وی پی این سروسز پُرعزم دکھائی دیتی ہیں تاکہ صارفین کے آن لائن تجربے پر کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

ایکسپریس وی پی این نے ڈان سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان کی سروسز چین میں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ اس سے فائروال کے مؤثر ہونے اور ایسی ٹیکنالوجی کی خریداری پر بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

ٹیکنوپیڈیا جوایک معروف ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پلیٹ فارم ہے، اس کی رپورٹ کے مطابق 2022ء کے بعد سے چین میں وی پی این صارفین کی تعداد میں 90 فیصد سے زائد کا ہوش رُبا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وی پی اینز ’چین کی گریٹ فائروال کو عبور‘ کرنے میں بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئے ہیں جوکہ اسی طرز کی ٹیکنالوجی سے مشابہت رکھتی ہے کہ جس کی پاکستان میں نفاذ کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔

آزادی اظہار رائے کو خطرات

اگر ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ کس طرح وی پی اینز نے چینی فائروال کو ناپید کیا، تو پاکستانی حکام پھر بھی ایسی ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کیوں کررہے ہیں؟

فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ ’تاریخی اعتبار سے پاکستان میں اقتدار پر براجمان قوتوں کے لیے آزادی اظہار رائے ایک مستقل مسئلہ رہا ہے حالانکہ یہ ترقی کرنے والے کسی بھی معاشرے کا لازمی جزو ہے‘۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فائروال کا منصوبہ اختلاف میں اٹھنے والے آوازوں کو دبانے کی حکومتی کوششوں کی کڑی ہے۔

پاکستان کی حکومتوں کو ہمیشہ سے آزادی اظہارِ رائے سے مسائل رہے ہیں
پاکستان کی حکومتوں کو ہمیشہ سے آزادی اظہارِ رائے سے مسائل رہے ہیں

وہ مزید کہتے ہیں، ’اگرچہ ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ یہ فائروال کس حد تک مؤثر ثابت ہوتا ہے لیکن میرے خیال میں صارفین اس کا توڑ نکال لیں گے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی کی آزادی اظہار رائے پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے‘۔

پاکستان میں طاقتور طبقے کے لیے آزادی اظہار رائے ہمیشہ سے درد سر رہا ہے جبکہ سول سوسائٹی کے رہنما اس کے خلاف مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں۔ قومی سلامتی کی آڑ میں انٹرنیٹ پر نگرانی کا تازہ ترین فیصلہ، ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان رسہ کشی کے ایک اور نئے کھیل کا سبب بنے گا۔

اس طرح کے اقدامات سے حکومت پر عوام کے اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچے گی۔

اس سب سے سوال یہ اٹھتا ہے کہ ریاست ایک ہی دائرے میں کیوں گھوم رہی ہے کہ جہاں وہ اپنی توانائی ان کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے رعایا کے ساتھ تنازعات پیدا کررہے ہیں۔

آخرکار اس کا حتمی فیصلہ موجودہ حکومت کو کرنا ہے۔ لیکن اس حوالے سے جارج اورویل کی مشہورِ زمانہ سیاسی تصنیف ’اینیمل فارم‘ سے رہنمائی لینا اچھا رہے گا۔

اس کتاب میں نپولین نامی خنزیر جوکہ درحقیقت سوویت ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن پر مبنی کردار تھا، وہ اپنی آمرانہ پالیسیز سے جانوروں کے پورے فارم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہی پالیسیز اس کے زوال کا سبب بنتی ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

شیراز خان راجپوت

لکھاری براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024