پیپلزپارٹی کا پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی مخالفت کرنے والے پارٹی رہنماؤں کے بیانات سے اظہار لاتعلقی
حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر بطور سیاسی جماعت پابندی عائد کرنے کے حکومتی اقدام کی مخالفت کرنے والے پارٹی کے کچھ رہنماوں کے بیانات کو ان کی ’ذاتی‘ رائے قرار دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے ایک مختصر بیان میں پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے بیان کو مسترد کردیا، انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا چونکہ پی ٹی آئی پر پابندی کی تجویز پر پارٹی میں کسی بھی سطح پر بات نہیں ہوئی، لہذا پارٹی رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے بیانات کو ’ان کے ذاتی نقطہ نظر‘ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔
نیئر بخاری کا بیان وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی ایک نیوز کانفرنس کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی عائد کرنے اور آرٹیکل 6 کے تحت اس کے رہنماؤں کے خلاف ٹرائل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔
سکھر سے پیپلز پارٹی کےسینئر رہنما خورشید شاہ نے ڈان نیوز کو بتایا کہ انہوں نے حکومتی فیصلے کو دوسرے لوگوں کی طرح ہی سنا، اس طرح کے فیصلوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس معاملے پر اپنی پارٹی اور اس کی پالیسی کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹرز رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے فیصلے کی کھل کر مخالفت کی اور خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدام سے ملک میں مزید افراتفری پھیلے گی۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ کسی جماعت پر پابندی لگانا جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسا فیصلہ لینے سے گریز کرے، کیوں کہ ان اقدامات سے سیاسی انتشار بڑھے گا اور معیشت تباہ ہو گی، حکومت اگر فل کورٹ کے فیصلے سے ناراض ہے، تو آئینی طریقے سے نظرثانی کی درخواست دائر کرے، پاکستان کی تاریخ میں سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اقدام ہمیشہ ناکام رہا ہے۔
اس سے قبل پی پی پی کے ایک اور رہنما فرحت اللہ بابر نے اس طرح کے اقدام کو ’فضول‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے یا سیاسی رہنما کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں بے معنیٰ ہیں۔
نیئر بخاری نے واضح کیا چونکہ حکومت نے اس موضوع پر پیپلزپارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا، اس لیے اس وقت پارٹی کو کوئی باضابطہ بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی وزیر اطلاعات کے اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، ہمارے لیے یہ اس وقت سنجیدہ اقدام ہوگا جب وزیر اعظم شہباز شریف یا ان کے بھائی نواز شریف باضابطہ طور پر صدر آصف علی زرداری یا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ کریں گے اور انہیں اس بارے میں آگاہ کریں گے۔
پی پی پی کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) ان کی قیادت کو باضابطہ طور پر اس طرح کے اقدام سے آگاہ کرے گی تو وہ اس معاملے پر پارٹی میں مشاورت ہوگی، چیئرمین بلاول کی امریکا سے واپسی کے بعد اجلاس بلایا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو انہیں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بھی مشاورت کی جاسکتی ہے۔
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (نٌ) کے اندر بھی اس حوالے سے متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں۔
یاد رہے کہ اسحٰق ڈار نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف پر ابھی پابندی لگانے کا فیصلہ نہیں ہوا، پابندی کے حوالے سے پارٹی کی قیادت بات کرے گی اور پھر اتحادیوں سے مشورہ کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں، وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے لیے پارلیمنٹ میں اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔
نیئر بخاری نے بلاول بھٹو کی بطور وزیر خارجہ ایک پریس کانفرنس کی طرف اشارہ کیا، جس میں انہوں نے پی ٹی آئی پر پابندی کے اقدام کی مخالفت کی تھی۔
گزشتہ سال 12 مئی کو کراچی میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی نے 9 مئی کو پارٹی سربراہ کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں کے پرتشدد مظاہروں کو ’غداری‘ اور ’دہشت گردی‘ کی کارروائیوں سے تعبیر کیا تھا تاہم انہوں نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی تجاویز کو ٹھکرا دیا تھا۔
لیکن انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی ’مسلح بغاوت‘ پر اصرار کرتی ہے، تو ہم ایسی تنظیم پر پابندی عائد کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔