• KHI: Zuhr 12:33pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 4:49pm
  • KHI: Zuhr 12:33pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 4:49pm

صنم جاوید کو جمعرات تک گرفتار نہ کرنے کا حکم، گھر جانے کی اجازت

شائع July 15, 2024
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما صنم جاوید— فوٹو بشکریہ ایکس
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما صنم جاوید— فوٹو بشکریہ ایکس

اسلام آباد ہائی کورٹ نے رہنما پاکستان تحریک انصاف صنم جاوید کو جمعرات تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی۔

آج اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے صنم جاوید کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا، پولیس بلوچستان میں درج 9 مئی واقعات کے کیس میں صنم جاوید کو لے کر عدالت پہنچی، صنم جاوید کو جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

دوران سماعت بلوچستان پولیس نے عدالت سے صنم جاوید کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کردی۔

جج مرید عباس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر دیکھ لیں، بلوچستان میں 7 اے ٹی اے کی دفعات ہیں ، وکیل صنم جاوید نے بتایا کہ ان کی مؤکل کو کل چار بجے گرفتار کیا، سینئر کونسل نے آنا ہے اس لیے وقفہ کردیا جائے۔

اس پر جج نے کہا کہ زیادہ دیر تک انتظار نہیں کیا جاسکتا، رش کی وجہ سے اس کیس کو رکھ نہیں سکتا، اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔

سماعت کے دوبارہ آغاز پر معاون وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت مقرر ہوگئی ہے ، سنیئر کونسل ادھر ہیں ، اسلام آباد ہائی کورٹ میں کوئی ڈائریکشن آسکتی ہے، التوا میں رکھ دیں۔

جج مرید عباس نے ریمارکس دیے کہ میں اب اتنا انتظار نہیں کرسکتا اور سماعت ملتوی بھی نہیں ہوسکتی، کوئی آرڈر ہے آپ کے پاس تو دے دیں کہ اس کیس کو رکھا جا سکتا ہے؟

بعد ازاں صنم جاوید روسٹرم پر آگئیں، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میں استدعا کرتی ہوں کہ انتظار کرلیا جائے ، میں 14 ماہ سے زیادہ عرصے سے گرفتار ہوں، کل میرے بچے خوش تھے کہ میں واپس گھر آرہی ہوں، ہمیں اس وقت بہت کم وقت ملا ہے ، اتنی جلدی میں تیاری بھی ممکن نہیں ہوتی۔

اس پر جج نے کہا کہ 20 منٹ انتظار کرلیتے ہیں، آپ کے سینیئر آجائیں تو دیکھ لیتے ہیں، صنم جاوید نے کہا کہ مجھے کل گرفتار کرتے ہوئے بتایا نہیں گیا کہ کس کیس میں گرفتار کررہے ہیں؟

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں 20 منٹ کا وقفہ کردیا۔

سماعت کے دوبارہ آغاز پر فتح اللہ برکی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہدایت کی ہے کہ کیس انتظار میں رکھیں، جج مرید عباس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ ڈائریکشن دی ہے؟ میں کنفرم کرلوں آفس سے، وکیل نے کہا کہ جی کنفرم کرلیں۔

جج مرید عباس نے اسلام ہائیکورٹ سے کنفرم کرنے کے بعد حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ میں ابھی تک کیس سنا ہی نہیں گیا، آپ کی طرف سے غلط بیانی کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈائریکشن دی ہے۔

بعد ازاں پراسکیوٹر محمد عدنان عدالت کے سامنے پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ ان کی ایما پر بلوچستان میں ایک وقوعہ ہوا جس میں ایک شخص کی موت بھی واقع ہوگئی، ہمیں صرف سفری ریمانڈ چاہیے ، اس میں اور کسی میرٹ کی بات تو ہے نہیں۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کے دیگر وکلا کے بولنے پر صنم جاوید نے عدالت کے سامنے اعتراض کرتے ہوئے کہا صرف میرا متعلقہ وکیل ہی میری نمائندگی کرے گا۔

جج مرید عباس نے پی ٹی آئی وکلا سے مکالمہ کیا کہ ملزمہ آپ لوگوں کی نمائندگی کو مان ہی نہیں رہی تو آپ سب باہر چلے جائیں، بعد ازاں پی ٹی آئی وکیل علی بخاری عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ میں کیس کا ریکارڈ دیکھنا چاہتا ہوں۔

اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان پولیس نے تین دن کا راہداری ریمانڈ مانگا ہے۔

اسی کے ساتھ عدالت نے علی بخاری ایڈووکیٹ کو ریکارڈ دیکھنے کی اجازت دے دی۔

پی ٹی آئی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 5 بجے صنم جاوید کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے بھی غلط بیانی کرچکے ہیں ، ہائی کورٹ سے جب حکم آئے گا دیکھیں گے ، وکیل علی بخاری نے کہا کہ مجسٹریٹ ہونے کے ناطے آپ کے پاس پاور ہے ، آپ حکم کرسکتے کہ صنم جاوید کو اسلام آباد سے باہر نہ لے جایا جائے ، ہم نے ابھی دلائل دینے ہیں ، لیکن پرنسپل کونسل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں صنم جاوید کے خلاف یہ واردات ہی ڈالی گئی ہے ، میں اس مقدمے کو سیاسی مقدمہ بھی نہیں کہوں گا ، اس مقدمے میں صنم جاوید نامزد نہیں ہے، صنم جاوید کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا ہوا ہے ، میں ایک عدالتی فیصلہ پیش کرتا ہوں جو اس مقدمے میں پولیس کے حق میں نہیں ہے، کل عمران خان کی گرفتاری ڈالی گئی تو ان کو تو نہیں لے کر گئے لاہور، یہ خاتون ہیں ان کو کیوں لے کر جارہے ہیں؟

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ عدالت سفری ریمانڈ کی استدعا منظور کرسکتی ہے تو انکار بھی کرسکتی ہے ، اس پر علی بخاری ایڈووکیٹ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ ضمانت کی طرف آنا چاہتے ہیں ، وکیل نے بتایا کہ جی آپ نے صحیح پکڑا ، ضمانت کی طرف ہی آنا چاہتا ہوں، خاتون ایک سال سے قید میں ہے اس کے بعد ضمنی بیان آرہا ہے، ضمنی بیان سی آر پی سی کا حصہ ہے ہی نہیں، شیخ رشید کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئٹہ کے مقدمات خارج کردیے تھے ، اس عدالت کے پاس ریمانڈ دینے کے ساتھ ضمانت دینے کا اختیار بھی ہے ۔

وکیل علی بخاری نے کہا کہ قانونی پہلوؤں سے عدالت کی معاونت کردی ہے ، اب اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے ، اس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عدالت کے سامنے سفری ریمانڈ کا کیس ہے، انہوں نے میرٹ پر بات کرنا شروع کردی ، اس مقدمے میں قتل اور دہشتگردی کی دفعات ہیں ، اس عدالت کے پاس دہشتگردی کی دفعات کے تحت ضمانت دینے کا اختیار ہی نہیں ہے ، تمام عدالتی فیصلے اور میرٹس پر دلائل متعلقہ عدالت میں دیے جاسکتے ہیں ادھر نہیں۔

بعد ازاں وکیل علی بخاری نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ مقدمے کی ضمنی عدالت کے سامنے پڑھی جائے۔

دورانِ سماعت عدالت میں جج مرید عباس نے مقدمے کی ضمنی پڑھی، علی بخاری ایڈوکیٹ کی جانب سے صنم جاوید کے مختلف کیسز میں ضمانت کنفرم اور ڈسچارج کرنے کے فیصلے پڑھے گئے۔

علی بخاری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے تک آرڈر نہیں لکھوا سکتی ، جج مرید عباس نے ریمارکس دیے کہ عدالت سب چیزیں دیکھ کر فیصلہ کرے گی۔

اسی کے ساتھ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، بعد ازاں عدالت نے صنم جاوید کی موجودگی میں سماعت کا فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا ۔

فیصلے کے مطابق صنم جاوید کے وکلا نے دلائل دیے کہ گرفتاری غیر قانونی ہے ، دورانِ سماعت عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عدالت کو آفیشلی ڈائریکشن آئیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈائریکشن کے مطابق صنم جاوید کو ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے، یہ عدالت تب تک کوئی بھی فیصلہ نہیں دے سکتی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آتا، مقامی پولیس کو ہدایت کی جاتی ہے صنم جاوید کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے۔

عدالتی حکم پر صنم جاوید کو اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا دیا دیا گیا، اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے، کمرہ عدالت کے باہر بھی مرد و خواتین سیکیورٹی اہلکار تعینات رہے۔

صنم جاوید کو کمرہ عدالت پہنچا گیا، کمرہ عدالت پہنچنے پر صنم جاوید کی اہل خانہ اور وکلا سے ملاقات ہوئی، اس دوران آئی جی اسلام آباد بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے، ایف آئی اے حکام بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔

بیٹی کی رہائی کے لیے صنم جاوید کے والد کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، صنم جاوید کے والد کے وکیل بیرسٹر میاں علی اشفاق عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

وکیل نے مؤقف اپنایا کہ صنم جاوید نے بتایا ہے کہ بار بار اسلام آباد پولیس سے پوچھا اسلام آباد پولیس کی کوئی ایف آئی آر نہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا وہ حراست میں لی گئی تھی ؟ وکیل میاں علی اشفاق نے جواب دیا کہ جی میرے آفس کے باہر سے حراست لی گئی تھی۔

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ بلوچستان پولیس نے صنم جاوید کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی ہے۔

عدالت نے صنم جاوید کیخلاف ایک سال کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے صنم جاوید کی جمعرات تک گرفتاری سے روک دیا اور انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل میاں علی اشفاق کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید اس دوران ایک بھی لفظ بولیں تو عدالت آپنا آرڈر واپس لے لے گی، صنم جاوید گھر جائے اور خاموش رہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ صنم جاوید کو عدالت پیش کیا جانا پولیس کے لیے قابل تعریف ہے، ورکنگ ڈیز میں ہم اس کا فیصلہ کریں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جمعرات تک صنم کو کوئی بھی گرفتار نہیں کرے گا، جمعرات تک صنم جاوید اسلام آباد سے باہر نہیں جاسکتی۔

عدالت نے کہا کہ صنم جاوید کے والدین یقینی بنائیں کہ صنم کوئی بیان نہ دیں، عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے رہائی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما صنم جاوید کو اسلام آباد پولیس نے دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

عدالت نے صنم جاوید کے وکلا کی مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا منظور کرلی تھی اور رہائی کے بعد صنم جاوید گھر روانہ ہوگئی تھیں تاہم کچھ ہی دیر بعد اسلام آباد کی رمنا پولیس نے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 9 مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا اور اس دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جبکہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔

اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

9مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں یاسمین راشد، محمودالرشید، اعجاز چوہدری کے ساتھ ساتھ صنم جاوید کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 26 اگست 2024
کارٹون : 25 اگست 2024