آئی ایم ایف ڈیل ریلیف لیکن جشن منانے کی وجہ نہیں، سابق گورنر اسٹیٹ بینک
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا معاہدہ پاکستان کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گا تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ جشن منانے کا سبب نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق قائم مقام گورنر مرتضیٰ سید نے ایک ٹویٹ میں نوٹ کیا کہ عملے کی سطح کے اس معاہدے (ایس ایل اے) کے لیے جو کہ عالمی قرض دہندہ کے ساتھ پاکستان کا 25 واں پروگرام ہے، ملک کو اپنے ترقیاتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے مالیاتی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے۔
بیجنگ میں قائم ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کے لیے کام کرنے والے مرتضیٰ سید نے تسلیم کیا کہ اگرچہ پاکستان پر غیر پائیدار قرض ہے مگر غیر ملکی قرض دہندگان بہت زیادہ متنوع ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان چین کے مقابلے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور پیرس کلب جیسے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کا زیادہ مقروض ہے۔
پاکستان کا موازنہ قرضوں کے اسی طرح کے دباؤ کا سامنا کرنے والے دوسرے ممالک سے کرتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ ہم اس کشتی میں سوار نہیں ہیں جس میں دیگر ممالک سوار ہیں اور جن کا چین اہم قرض دہندہ ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ آئی ایم ایف معاہدہ نامکمل ہے کیونکہ پاکستان کو اپنے تمام بڑے بیرونی قرض دہندگان سے قرضوں میں ریلیف کی ضرورت ہے، بشمول کثیرالجہتی ترقیاتی بینک، بانڈ ہولڈرز، پیرس کلب اور چین۔
اپنے طور پر، چین کے ساتھ ہمارا ایکسپوژر نسبتاً کم ہے، اس لیے یہ ہمارے قرض کے مسائل خود حل نہیں کر سکتا، چین بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے۔
واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگل مین نے اس منصوبے کی توثیق کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے گزشتہ سال کے دوران مشکل سے حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام کی تعریف کی۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسلام آباد کے لیے جمعہ کا آغاز سپریم کورٹ کی طرف سے ایک دھچکے سے ہوا اور ایک اہم عطیہ دہندہ کی طرف سے فراہم کردہ فروغ کے ساتھ ختم ہوا۔
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبر ایس زیدی نے لکھا کہ آئی ایم ایف پیکج جشن منانے کے لیے نہیں ہے، کیونکہ یہ ہماری ناکامیوں کا اعتراف ہے، ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جا کر مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔