جج کو ہراساں کرنے کا کیس: ڈی پی او سرگودھا سمیت دیگر پولیس افسران نے غیر مشروط معافی مانگ لی
سرگودھا کی انسداد دہشتگردی عدالت جج کو آئی ایس آئی کی جانب سے مبینہ ہراساں کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ڈپٹی پولیس افسر سرگودھا، ریجنل افسر محکمہ انساد دہشت گردی اور متعلقہ اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) نے لاہور ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
ڈان نیوز کے مطابق سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ وزیر اعظم ملک سے باہر تھے، عدالتی حکم پر ایک دو ہفتوں میں عملدر آمد کر دیں گے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے عدالت کے سامنے یہ بیان دے دیں کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو گا۔
اس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے دو معاملات ہیں، ایک رٹ ہے دوسرا توہین عدالت کا، توہین عدالت کے معاملے کا کیا کرنا ہے؟ اس پر عدالتی معاون حنا حفیظ عدالت کی معاونت کریں گی،۔
بعد ازاں عدالتی معاون نے بتایا کہ توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، اس عدالت کے پاس اختیار موجود ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ جن پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہے وہ جواب جمع کرائیں۔
اس موقع پر پولیس افسران نے عدالت میں تحریری جواب عدالت میں جمع کرا دیا، ڈی پی او سرگودھا اور ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی نے اور متعلقہ ایس ایچ او نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ غیر مشروط معافی منظور کرنی ہے یا توہین عدالت کی کارروائی کرنی ہے آئندہ سماعت ہر فیصلہ کریں گے۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے کارروائی اگست کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ آج سماعت سے قبل وزارت داخلہ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر تحریری جواب عدالت میں جمع کرا دیا تھا، انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ اے ٹی سی ججز کی سیکیورٹی کا معاملہ پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے، ججز اور ان کی فیملی کی سیکیورٹی کے ذمہ دار آئی جی پنجاب ہیں، تمام متعلقہ محکمے پہلے ہی اس معاملے میں فریق ہیں، وزارت داخلہ کی حد تک جواب کو منظور کیا جائے۔
یاد رہے کہ 29 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا کے جج کو آئی ایس آئی کی جانب سے مبینہ ہراساں کرنے کے کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدلیہ میں سول و ملٹری ایجنسیوں کی مداخلت روکنے کے لیے 5 ایس او پیز جاری کر دیے تھے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، انٹر سروس انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) وزیر اعظم کے ماتحت ہیں، ان کو ذمہ داری لینی ہوگی۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ وزیراعظم آفس آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت تمام سول اور ملٹری ایجنسیوں کو ہدایت جاری کریں کہ وہ مستقبل میں اعلی عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کے کسی بھی جج یا ان کے عملے کو اپروچ نہ کریں۔
انہوں نے ازخود نوٹس کو رٹ پٹیشن میں بھی تبدیل کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 جون اس وقت کے چیف جسٹس شہزاد ملک لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ میں تقرری کے بعد ازخود نوٹس کیس کو جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں ارسال کردیا تھا۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ڈی ایس پی سرگودھا، آر او سی ٹی ڈی سرگودھا، متعلقہ ایس ایچ او سرگودھا کو توہین عدالت کےشوکاز نوٹسز بھی جاری کردیے تھے۔
اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے خطوط پر از خود نوٹس لیا تھا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسر نے ان سے ملنے کی درخواست کی تھی۔
لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس کو 7 جون کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عباس کی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ موصول ہوئی، جس میں انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو اے ٹی سی سرگودھا کے جج کی حیثیت سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے پہلے ہی دن انہیں ایک پیغام پہنچایا گیا کہ آئی ایس آئی کے کچھ حکام ان کے چیمبر میں ملنا چاہتے تھے، تاہم جج نے ملنے سے انکار کردیا۔
جج نے کہا کہ تب سے انہیں اور ان کی فیملی کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جارہا ہے، رات کے وقت کچھ نامعلوم افراد نے ان کی رہائش گاہ کے باہر سوئی گیس میٹر کو نقصان پہنچایا۔