• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

وزیراعظم کا بجلی کے بلوں میں زائد یونٹ شامل کرنے والے اہلکاروں کےخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ

شائع July 6, 2024
انہوں نے ہدایت کی کہ ملک میں قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے اقدامات میں تیزی لائی جائے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے ہدایت کی کہ ملک میں قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے اقدامات میں تیزی لائی جائے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بجلی صارفین کے بِلوں میں زائد یونٹس شامل کرنے والے افسران و اہلکاروں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے پاور ڈویژن کو تقسیم کار کمپنیوں کے ایسے اہلکاروں و افسران کو فوری معطل کرنے اور ان کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیر اعظم میڈیا آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت بجلی شعبے کی اصلاحات اور ملک میں شمسی توانائی کے حوالے سے اعلی ٰسطح کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ مصنوعی طور پر بجلی کے زائد یونٹس بِل میں شامل کرکے صارفین پر ظلم کرنے والے عوام دشمن افسران و اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے، جبکہ 200 یونٹس سے نیچے تحفظ شدہ صارفین کے بِلوں میں مصنوعی طور پر زائد یونٹس شامل کرکے غیر تحفظ شدہ درجے میں شامل کرنے والے اہلکاروں و افسران کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔

انہوں نے ہدایت کی کہ ملک میں قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے اقدامات میں تیزی لائی جائے، پاکستان درآمدی ایندھن سے بجلی بنانے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں کیے گئے غلط پالیسی اقدامات کا بوجھ غریب عوام کو قطعاً برداشت نہیں کرنے دوں گا، کم لاگت قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار سے صارفین کو بِلوں میں ریلیف ملے گا۔

شہباز شریف نے پاور ڈویژن کو ہدایت کی کہ ملک میں درآمدی ایندھن سے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے اور ناکارہ سرکاری کارخانوں کو فوری طور پر بند کیا جائے، پوری دنیا قابلِ تجدید توانائی سے بجلی پیدا کر رہی ہے، پاکستان میں شمسی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی وسیع استعداد موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی کی استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024