باکسنگ رنگ کی ملائکہ: ’مجھے مُکے سہنے کی عادت ہوچکی‘
کم عمری سے ہی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ملائکہ زاہد کو کھیلوں کی مختلف سرگرمیوں میں دلچسپی تھی، وہ درختوں پر چڑھتیں، دیواروں پر اسکیلنگ جبکہ کرکٹ اور فٹبال بھی کھیلا کرتی تھیں۔ لیکن چونکہ ان کے والد کو باکسنگ سے خاص لگاؤ تھا اس لیے وہ بھی اسی کھیل میں دلچسپی لینے لگیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ وہ باکسنگ کے سحر میں اس قدر جکڑ گئیں کہ انہوں نے تمام کھیلوں کو ترک کردیا، البتہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 19 سالہ ملائکہ ڈان کو بتاتی ہیں، ’میں دیکھتی تھی کہ میرے بابا موبائل فون پر کتنے پُرجوش انداز میں باکسنگ میچز دیکھتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ باکسنگ دیکھتی تھی‘۔
باکسنگ کے لیے ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انہیں باکسنگ کلب میں داخل کروایا جبکہ ان کی والدہ اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھیں کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ باکسنگ کے دوران ان کی بیٹی کی ناک کی ہڈی ٹوٹے یا ان کا چہرہ داغ دار ہوجائے۔ ملائکہ کے والد کے دوست عطا محمد کاکڑ اپنے ماتحت لڑکوں کے لیے عطا محمد کلب کے نام سے ایک باکسنگ کلب چلاتے تھے۔ 9 سالہ ملائکہ اس کلب میں مکے برسانے والی واحد لڑکی تھیں۔
وہ کہتی ہیں، ’اس وقت بلوچستان میں میرے علاوہ کسی بھی لڑکی کو باکسنگ میں دلچسپی نہیں تھی۔ درحقیقت میں بلوچستان کی پہلی خاتون باکسر ہوں۔ تو چھوٹی عمر میں، میں جب کلب میں پریکٹس کرتی تھی تو میرے والد میری پریکٹس کے دوران وہاں موجود رہتے تھے۔ وہ گھنٹوں مجھے پریکٹس کرتے دیکھتے تھے۔
’جبکہ میری والدہ گھر میں میری سلامتی کی دعائیں مانگتی تھیں۔ مجھے چہرے اور اس کے علاوہ ہر جگہ مکے مارے گئے۔ لیکن سچ کہوں تو مجھے مکے کے وار سہنے کی عادت ہوچکی ہے۔ مجھے اب ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سب اس کھیل کا حصہ ہے‘۔
ظاہر ہے کہ ملائکہ کی والدہ، ان کی طرح عادی نہیں ہوئیں۔
5 بار قومی باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے والی ملائکہ ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’جب میں پریکٹس کے ابتدائی مراحل میں تھی تو میری والدہ دعائیں مانگنے سے آگے بڑھ گئیں اور اب وہ جس دن میری فائٹ ہوتی تھی، اس دن روزہ رکھتی تھیں۔ لیکن بابا کی طرح ماما نے بھی مجھے بھرپور سپورٹ کیا اور مجھے اپنے خواب پورے کرنے کا حوصلہ دیا۔
’میرے والدین کی جانب سے دیے جانے والے حوصلے نے مجھے مضبوط بنایا۔ اس سے پہلے لڑکیاں مجھے گھورتی تھیں اور میرے باکسنگ کرنے پر جملے کستی تھیں لیکن میرے بابا مجھ سے کہتے تھے کہ میں ان پر توجہ نہ دوں۔ میں نے بھی یہ پرواہ کرنی چھوڑ دی کہ لوگ مجھے کس نظر سے دیکھتے ہیں اور میرے بارے میں کیا باتیں کرتے ہیں۔ ان کے تبصرے میرے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔ میرے لیے میں اہمیت رکھتی ہوں۔ ملک کی بہترین خاتون باکسر بننے کے لیے میری راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بننی چاہیے‘۔
اس کے علاوہ ملائکہ کو باکسنگ سے ایسی لگن تھی کہ جب ان کے کھیل کی راہ میں ان کے لمبے بال آئے تو انہوں نے اپنے بال چھوٹے کروا لیے۔ وہ بتاتی ہیں، ’بابا نے اس معاملے میں بھی مجھے سپورٹ کیا‘۔
محمد زاہد کی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے میں سے صرف ملائکہ کو ہی باکسنگ کا شوق ہے۔ ملائکہ کہتی ہیں، ’میری بہنیں مجھ سے چھوٹی ہیں اور انہیں کھیلوں میں دلچسپی نہیں۔ میرے بھائی مجھ سے ایک سال بڑے ہیں۔ اس سے قبل وہ کبھی کبھی باکسنگ کلب میں میرے ساتھ جاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی بھی کھیلوں میں دلچسپی ختم ہوگئی۔ انہیں ٹرین اور اپنی تعلیم میں زیادہ دلچسپی ہے۔
’دراصل میرے بھائی کو بھی ٹرینوں کا شوق میرے والد کی وجہ سے ہوا کیونکہ میرے والد ریلوے پولیس میں ملازمت کرتے ہیں‘۔
ملائکہ نے کہا کہ باکسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
کہتی ہیں، ’میرے والدین نے ہمیشہ تعلیم پر زور دیا۔ میں نے حال ہی میں پری انجیئرنگ میں فرسٹ ایئر مکمل کیا ہے‘۔
تعلیم کے علاوہ وہ باکسنگ کی دنیا میں بھی نام کما رہی تھیں۔ ان میں بہت سے اعزازات جن میں قومی سطح پر سونے کا تمغہ (متعدد بار)، صوبائی سطح پر سونے کا تمغہ (دو بار)، آل بلوچستان سونے کا تمغہ (چھ بار)، ملینئم بیسٹ چائلڈ ایوارڈ (تین بار)، ایف سی آپریشنل ایکسیلنس ایوارڈز، دیگر ایکسی لینس ایوارڈز، یوتھ ایوارڈز اور بہترین خاتون کھلاڑی کا ایوارڈ شامل ہے۔
ملائکہ کی باکسنگ کی وجہ سے پاکستان آرمی سے بھی ان کا معاہدہ ہوا۔ وہ فخریہ انداز میں کہتی ہیں، ’میں پاک فوج کی نمائندگی کرنے پر بہت فخر محسوس کررہی ہوں۔ ان کا کھیلوں کا شعبہ بہت اچھا ہے۔ اس سے قبل میں پاک فوج کے ساتھ مکمل ملازمت کے لیے کم عمر تھی لیکن چونکہ اب میں 19 سال کی ہوچکی ہوں اس لیے میں پُرامید ہوں کہ ان کے پاس میری ملازمت مستقل ہوجائے گی۔ یوں مجھے پاک فوج کی وردی بھی ملے گی‘۔
ملائکہ زاہد سالانہ قومی باکسنگ چیمپیئن شپ میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے پر مسرور ہیں جبکہ وہ پانچ بار قومی چیمپیئن بن چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’میں اپنی فلائی ویٹ کیٹیگری میں پچھلے پانچ سالوں سے ناقابل شکست ہوں‘۔
ملائکہ نے کہا کہ انہوں نے صرف ایک بار بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ 2022ء میں اردن میں ہونے والی ایشین یوتھ اینڈ باکسنگ چیمپیئن شپ میں ملائکہ نے شرکت کی تھی جہاں انہیں کوارٹر فائنل مرحلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ملائکہ بتاتی ہیں، ’اگر میں سیمی فائنلز میں پہنچ جاتی تو میں پاکستان کے لیے کانسی کا تمغہ جیت جاتی‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر باکسنگ کرتے ہوئے شارٹس اور ویسٹ پہنتی ہیں جس پر ملائکہ نے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں۔ وہ ہنستے ہوئے بتاتی ہیں، ’مسلم لڑکیوں کو شارٹس کے نیچے ٹائٹس اور ویسٹ کے نیچے شرٹ پہننے کی اجازت ہوتی ہے۔ گلووز اور سر پر حفاظتی گارڈ تو ہم سب پہنتے ہیں تو سب باکسر لگتے ہیں‘۔
ملائکہ کا کہنا ہے کہ وہ اب تک ملک کی تمام خواتین باکسرز کو شکست دے چکی ہیں جن میں بلوچستان کی ہزارہ باکسر اور لیاری کراچی کی باکسرز شامل ہیں۔ اس لیے یہاں کوئی ایسی خاتون باکسر نہیں ہے جسے شکست دینے کی وہ خواہش مند ہوں۔ وہ پاکستان کے محمد وسیم کی مداح ہیں۔
19 سالہ باکسر کہتی ہیں، ’اس سے پہلے میں کہ آپ یہ کہیں کہ چونکہ وہ میرے شہر کوئٹہ سے ہیں اس لیے میں ان کی مداح ہوں، مجھے رنگ میں ان کی پھرتی پسند ہے‘۔
ملائکہ نے بتایا، ’میرے دادا کی پوسٹنگ کی وجہ سے میرے خاندان کو کوئٹہ منتقل ہونا پڑا لیکن ہم لوگوں کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ ہم اب بھی چھٹیاں گزارنے اپنے رشتہ داروں کے پاس آزاد کشمیر جاتے ہیں‘۔
بین الاقوامی باکسنگ کی دنیا میں اپنے پسندیدہ باکسر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ امریکی باکسر ریان گارسیا اور گرونٹا ڈیوس (جنہیں ٹانک بھی کہا جاتا ہے) سے متاثر ہیں۔ ملائکہ نے بتایا کہ ’ٹانک نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے‘۔
جب ملائکہ زاہد سے ان کے مستقبل کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کی آنکھوں میں کئی خواب نظر آئے۔ ملائکہ نے کہا، ’ابھی مجھے بہت کچھ کرنا ہے، میں پروفیشنل باکسر بننا چاہتی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے اولمپکس، ایشین گیمز اور کامن ویلتھ گیمز۔۔۔‘
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔