• KHI: Asr 4:08pm Maghrib 5:44pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:08pm Maghrib 5:44pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm

مخصوص نشستوں کا کیس: ’پی ٹی آئی ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی‘

فوٹو: اسکرین شاٹ
فوٹو: اسکرین شاٹ

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کے تیسرے روز بھی دلائل جاری ہیں، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میں 30 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا، میں 4 قانونی نکات عدالت کے سامنے رکھوں گا، پارٹی سرٹیفکٹس جمع کرانے کے وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا،ان کے بقول پارٹی تنظیم انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کرانے کی وجہ سے وجود نہیں رکھتی تھی، الیکشن میں سرٹیفیکٹ گوہر علی خان کے دستخط سے جمع کرائے گئے، پی ٹی آئی نے اس وقت انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں کرائے تھے، فارم 66 جمع کراتے وقت پی ٹی آئی کا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، پی ٹی آئی نے فارم66 22 دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکٹ 13 جنوری کو جاری کیے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکٹ تو کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیے تھے،

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفیکٹ منسلک ہیں، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفیکٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف کا انتخاب نہیں ہوا تھا؟ سکندر بشیر نے کہا کہ سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔

وکیل الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحادکونسل کا امیدوار کہا، حامدرضا نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کروائی۔

حامد رضا کی ہر دستاویز ان کی پچھلی دستاویز سے مختلف ہے، وکیل الیکشن کمیشن

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ حامد رضا کی ہر دستاویز ان کی پچھلی دستاویز سے مختلف ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا حامدرضا کو سنی اتحادکونسل کا سرٹیفیکٹ دینا چاہیے تھا یا آزادامیدوار کا؟ وکیل نے کہا کہ حامد رضا کو سنی اتحادکونسل کا سرٹیفیکٹ جمع کروانا چاہیے تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن میں تو حامدرضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہرکیا نہ کہ آزادامیدوار۔

وکیل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر کو آیا، 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اور 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کا بتا دیتے تو کچھ ہوسکتا تھا۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا تحریک انصاف کرتی تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہوجاتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آرہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹراپارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹبال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے، اصل گیم 90 منٹ کی ہوتی ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا انتخابات جائز ہوئے یا نہیں، 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کے لیے پارٹی ہے۔

تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کے لیے سال دے دو۔

بعد ازاں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدوار علی محمدخان نے سرٹیفیکٹ نہ ڈیکلریشن میں کچھ لکھا ہوا، ایسے بےشمار ہیں جو کاغذات نامزدگی میں بلینک ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ میری اردو کچھ کمزور ہے، صاحبزادہ کو شہزادہ کہہ دیتاہوں۔

سماعت کے دوران وکیل سکندربشیر کو پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کا صحیح نام لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

وکیل نے بتایا کہ کنول شوزب کی درخواست پر سماعت نہیں ہونی چاہیے، وہ فیصلے سے متاثر نہیں ہوئیں، کنول شوزب تحریک انصاف میں ہیں، خواتین ورکرز ونگ کی سربراہ ہیں۔

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ 4 لوگ ممبر قومی اسمبلی بطور آزادامیدوار منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل سے ضم نہیں ہوئے،وکیل سکندربشیر

جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 6 امیدواروں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفیکٹ دیا لیکن وہ آزادامیدوار کیسے قرار پائے؟ جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق کتنے امیدواروں کا سرٹیفیکٹ، ڈیکلریشن منظور ہوا؟

وکیل نے جواب دیا کہ سب آزادامیدوار ہی رہے، جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں کے پاس اختیار ہے کہ تین روز میں کسی سے منسلک ہو جائیں، سب معاملہ حل ہوجائے گا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے درخواست میں کہا بلوچستان عوامی پارٹی نے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی لیکن انہیں دی گئیں، الیکشن کمیشن نے کیا اس ریکارڈ پر کوئی میٹنگ رکھی؟ ریکارڈ کو پرکھا؟

اس پر وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ ایسا کوئی الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود نہیں، موجودہ کیس میں تو مکمل سماعت ہوئی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کو کم سے کم گزشتہ انتخابات کو تحریر کرنا چاہیے تھا، ابھی پوزیشن کچھ اور ہے، اس سے قبل کچھ اور رکھی، آپ نے تو بلوچستان عوامی پارٹی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں تو انتخابات میں سیٹیں جیتی تھیں؟ کوئی ایسا قانون ہے کہ ایک صوبے میں سیٹیں جیتی ہوں تو دوسرے صوبے میں میں نہیں مل سکتیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہر انتخابات الگ ہوتے ہیں ، اگر کہا جائے کہ 8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے تو کیا درست ہے؟ وفاق اور صوبائی انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں۔

اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا بیرسٹر گوہرعلی خان موجود ہیں؟ ان کے سوال پر گوہر علی خان روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے دریافت کیا کہ آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفیکٹ جمع کروائے تو آپ نے ہاں کہا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں، کون سا بیان آپ کا درست ہے؟

اس پر گوہر علی خان نے جواب دیا کہ ہر امیدوار دو دو فارم جمع کرو سکتا ہے، میں نے آزادامیدوار اور تحریک انصاف کے جمع کروائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، دو کیسے لکھ لیے آپ نے؟ گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ایک حلقے کے لیے چار کاغذات نامزدگی جمع ہوتے، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا، میں نے الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے، 22 دسمبر 4 بجے سرٹیفیکٹ پہنچا دیے تھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات 9 بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں۔

خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں، اٹارنی جنرل

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں، مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں، خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلوں کےساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002 میں ملی، سال 1990 سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں، سترہویں ترمیم میں خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے، مخصوص نشستوں کے لیے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ کیا مخصوص نشستوں کے لیے 2002 سے یہی فارمولہ چل رہا ہے؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سال 2002 میں الیکشن ایکٹ 2017 نہیں تھا۔

اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آزادامیدواروں کی سیٹیں تو آپ نے شامل کی ہیں نا؟ آزادامیدواروں کو کم کردیں تو سیاسی جماعتوں کی مخصوص نشستیں بھی کم ہو جائیں گی، مجھے جو سمجھ آیا اگر آزادامیدوار سیاسی جماعت میں شمال نہیں ہوتا تو کیا وہ کہیں بھی شامل نہیں ہوگا کیا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا، پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا لیکن میں عام آدمی ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، وکلا اور ججز کے لیے آئین نہیں بنائے جاتے، آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے، آئین ایسے بنایا جاتا ہے کہ کہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت چاہتی جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔

ہارنے والا کہتا ہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، چیف جسٹس

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزاد امیدوار بنا دے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزاد امیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزاد امیدوار آیا ؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن خودمختار آئینی ادارہ ہے جس کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئےگا ہم نظرثانی نہیں کرسکتے، ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتا ہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے، کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بلکل اڑا دے گی۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف صاحب کہہ رہے الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فارمولا اور دستاویزات کل طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

گزشتہ سماعتوں کا احوال

واضح رہے کہ 27 جون کو سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔

یاد رہے کہ 25 جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔

واضح رہے کہ 24 جون کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔

22 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔

4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔

3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔

31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔

4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024