تمام ایجنسیاں عدالت کا حکم تسلیم کرنے کی پابند ہیں، لاہور ہائی کورٹ
لاہور ہائی کورٹ میں رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ڈاکٹر شہباز گل کے بھائی کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ تمام ایجنسیاں عدالت کا حکم تسلیم کرنے کی پابند ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق جسٹس امجد رفیق نے شہباز گل کے بھائی کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کی، عدالتی حکم پر انسپکٹر جنرل پنجاب ڈاکٹر عثمان انور لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ پولیس نے کیا ہر چیز کی محکمہ داخلہ سے اجازت لینی ہے ؟ اگر پولیس ایک بندے کو نہیں ڈھونڈ سکتی تو پھر ہم کسے کہیں ؟ پولیس کا عدالتوں کے ساتھ بھی یہی رویہ ہے، کل یہی لوگ عدالتوں میں ریلیف لینے کے لیے کھڑے ہوں گے، ہمارے سامنے روز ایک پولیس اہلکار کھڑا ہوتا ہے کہ ہمیں تھوڑا سا وقت دے دیں ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔
اس پر اسنپکٹر جنرل نے کہا کہ حکومت نے اسی کام کے لیے آرگنائزڈ کرائم یونٹ بنایا ہے، جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ اسے آرگنائزذ کرائم یونٹ میں لے جا رہے ہیں تو پھر ہمیں بتا دیں ، کون مغوی کو اٹھا کر لے گئے؟ کیا طالبان تھے؟ کون لوگ تھے؟ آپ کے پاس ایسے لوگوں کی لسٹ ہوگی۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ مغوی کی آخری لوکیشن بحریہ ٹاؤن کی ہے، ہمیں جیو فینسنگ کے لیے ڈیٹا چاہیے، ہمیں جیو فینسنگ کے لیے اجازت دی جائے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ کیا ہم نے اجازت دینی ہے؟ اتنے معصوم لوگ ہیں آپ؟ آئی نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہمیں جیو فینسنگ کا ڈیٹا نہیں مل رہا، موبائل کمپنیاں ہمیں ڈیٹا نہیں دے رہی ہیں، آپ کی اجازت ہوگی تو ہی ہمیں ڈیٹا ملے گا۔
اس پر جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ سی ڈی آر کے لیے میں الگ ہدایت دوں، جیو فینسنگ کے لیے الگ ہدایت دوں، سی ڈی آر کی اجازت عدالت نے کس لیے دی تھی؟ آپ لوگوں کی اپنی عقل کام نہیں کرتی۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ جیو فینسنگ سی ڈی آر سے مختلف ہوتی ہے، جیو فینسنگ میں اس علاقے کے ٹاورز کا ڈیٹا ملتا ہے، عدالت نے دریافت کیا کہ کتنی دیر میں یہ ہو جائے گا، کیا 6 ماہ میں ہو جائے گا؟ آئی جی صاحب کو کون تعینات کرتا ہے؟ وزیر اعلٰی یا وفاقی حکومت ؟ تا کہ میں ان سے پوچھوں کے کیسے آئی جی لگا دیتے ہیں وہ جو آ کر ہمیں یہاں کہانیاں سناتے ہیں۔
عدالت نے وکیل درخواستگزار سے مکالمہ کیا کہ پولیس آپ کے بندے کو نہیں دینا چاہتی، آپ کو بات سمجھ آ گئی ہے؟ آپ بتائیں کے بندہ کہاں ہے آپ کا ؟
اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ ڈاکٹر شہباز گل نے ہمیں پیغام پہنچایا ہے اور وی لوگ بھی کیا ہے کہ انہیں فون آیا ہے کہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیں، بندہ چھوڑ دیں گے، ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا بندہ ایجنسیوں کے پاس ہے۔
اس پر عدالت نے ائی جی پنجاب سے مکالمہ کیا کہ آپ رابطہ کریں ایجنسیوں سے اور ان سے پوچھیں کہ آپ پر یہ الزام ہے جواب دیں، ساتھ ہی عدالت نے پنجاب حکومت کے وکیل کو ہدایت دی کہ آج ساری کمپنیوں کے فوکل پرنسز کو 2 بجے بلایں، ایسا کرتے ہیں کہ دو سے تین وکیلوں کا ایک وفد بنا پر محکمہ داخلہ کو بھیج دیتے ہیں، وفد محکمہ داخلہ سے کہے کہ ایجنسیوں سے اس حوالے سے رپورٹ طلب کی جائے، تمام ایجنسیاں عدالت کا حکم تسلیم کرنے کی پابند ہیں۔
جسٹس امجد رفیق نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر آئی بی نہیں کرے گی تو ہم ایف آئی اے کو کہہ دیں گے، اگر وہ بھی نہیں کرے گی تو ہم آئی ایس آئی کو کہہ دیں گے اور آخر میں پاکستان کے عوام کو کہوں گا کہ آپ بندہ ڈھونڈ دیں۔
بعد ازاں عدالت نے دو بجے موبائل کمپنیز کے نمائندوں کو جیو فینسنگ کے بارے میں جواب دینے کے لیے طلب کر تے ہوئے کیس کی سماعت 4 جولائی تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 27 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شہباز گل کے بھائی کی بازیابی کی درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور آئی جی پنجاب کو کل طلب کرلیا تھا۔
واضح رہے کہ 14 جون کو عدالت نے شہباز گل کے بھائی کی مبینہ اغوا کی بازیابی پر سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کر لی تھی۔
وکیل نے الزام عائد کیا تھا کہ غلام شبیر جب اسلام آباد جا رہے تھے تو پولیس نے انہیں ’اٹھا‘ لیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ مغوی کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ پولیس درخواست گزار کو ان کے حوالے سے کچھ نہیں بتا رہی۔