• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

تنہائی کی شکار مسلم لیگ (ن) کو اپنے ہی ارکان اسمبلی کی تنقید کا سامنا

شائع June 22, 2024
فائل فوٹو: اے ایف پی
فائل فوٹو: اے ایف پی

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپنے ہی ارکان کی جانب سے غیر معمولی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، ارکان اسمبلی نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو ’آئی ایم ایف کے حکم پر ٹیکس سے بھرپور‘ بجٹ پیش کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، یہاں تک کہ حکومت کے ایک اہم اتحادی نے بجٹ پر جاری بحث کا بائیکاٹ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوسرے روز بھی وزیر خزانہ سمیت دیگر وفاقی وزرا کی ایوان سے غیرحاضری پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔

حکمران اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے ایوان میں ’علامتی شرکت‘ کے زریعے اپنا احتجاج جاری رکھا، پی پی اراکین نے اجلاس میں شرکت کی لیکن حکومت سازی کے وقت اور بجٹ کی تیاری پر مشاورت کے معاملے پر حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی پر احتجاجاً بحث میں حصہ نہیں لیا۔

جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات طے پانے کی خبروں کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے بحث کا بائیکاٹ کرنے کا عمل بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعہ کو ہونے والی بحث میں مسلم لیگ (ن) کے 5 ارکان نے حصہ لیا لیکن ان میں سے کسی نے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرنے کی ہمت نہیں کی، انہوں نے شکایت کی کہ بجٹ کی تیاری کے دوران وزیر خزانہ اور بیوروکریٹس سے بھی مشاورت نہیں کی گئی۔

مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی آسیہ ناز تنولی نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے پر اپنی پارٹی کی تعریف کی، لیکن وہ زیادہ تر نواز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی کی حکومت کی کارکردگی پر بات کرتی رہیں۔

سنی اتحاد کونسل سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رہنماؤں نے پارٹی کو مبینہ طور پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جو مختلف مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں۔

وفاقی وزرا کی غیر حاضری

وزیر اعظم شہباز شریف نے چند منٹوں کے لیے اجلاس میں شرکت کی لیکن زیادہ تر وقت کے لیے حکومتی بینچز خالی رہیں جس پر قانون سازوں کی جانب سے تنقید کی گئی۔

پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے ایوان میں وفاقی وزرا کی عدم موجودگی پر سنی اتحاد کونسل کے اسد قیصر کی بات کی تائید کی۔

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب سمیت سنی اتحاد کونسل کے متعدد ارکان نے کہا کہ وزیر خزانہ ایوان میں نہیں آرہے کیونکہ وہ منتخب نمائندوں کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزرا کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ بحث میں صرف اپوزیشن کے ارکان حصہ لے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بجٹ کا مالک اور دفاع کرنے کے لیے حکومتی بنچوں پر کوئی نہیں ہے۔

قانون سازوں نے وزیر خزانہ سے بالواسطہ ٹیکس لگانے اور تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالنے کے علاوہ اسٹیشنری، پیک شدہ دودھ اور طبی آلات سمیت ہر چیز پر سیلز ٹیکس عائد کرنے پر تنقید کی

ایوان میں ارکان اسمبلی کی اکثریت نے وفاقی بجٹ کو ’آئی ایم ایف کا حکم نامہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ صرف غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے اور مزید قرضے حاصل کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔

اس کے علاوہ، ایوان میں تقریباً تمام قانون سازوں نے اپنی تقاریر میں بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باوجود اپنے حلقوں میں جاری لوڈشیڈنگ پر احتجاج کیا۔

حکمران اتحاد میں شامل ایک اور جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے فنانس بل کو ’روایتی بجٹ‘ قرار دیتے ہوئے اسے ملک کی بقا اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا ’اگرچہ ہمارے پارٹی رہنما خالد مقبول صدیقی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ کابینہ کے اجلاس میں ٹیکس کے ان اقدامات پر بات نہیں ہوئی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ عوام ’باغی‘ ہوتے جارہے ہیں اور وہ جلد ہی وہ آزاد کشمیر کے عوام کی طرح سڑکوں پر ہوں گے، جنہوں نے اپنے طویل اور مسلسل احتجاج کے ذریعے بجلی کی قیمتوں میں ریلیف حاصل کیا۔

فاروق ستار نے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے اور متوسط ​​طبقے اور تنخواہ دار لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے 70 فیصد ریونیو اکٹھا کر رہی ہے، انہوں نے جنرل سیلز ٹیکس کو موجودہ 17 فیصد سے کم کرکے 9 فیصد کرنے پر بھی زور دیا۔

ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں 20 روپے اضافے کی حمایت کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے کہا کہ ماضی میں دونوں جماعتیں اسے ’بھتہ خوری‘ کہا کرتی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 17 نومبر 2024
کارٹون : 16 نومبر 2024