• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اداروں کو اپنا کام کرنا چاہیے، یہاں سب جھوٹ بول رہے ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی

شائع June 14, 2024
— فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ
— فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے کیس پر سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ طویل مدتی گمشدگی کا معاملہ قلیل مدتی گمشدگی کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

مقدمے کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی، درخواست گزار ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئیں، ان کے علاوہ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی)، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، محکمہ انساد دہشتگردی (سی ٹی ڈی)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، کیا خفیہ اداروں کی کمیٹی نے کوئی ورکنگ کی ہے؟

اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اگر عدالت عید کے بعد کا وقت دے دے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جو مسنگ ہیں انہوں نے بھی عید کرنی ہے۔

اس موقع پر وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ میں ہائی لائٹ کرنا چاہتی ہوں ادھر کوئی اور بیان دیا جاتا ہے اور بلوچستان میں کچھ اور ہوتا ہے، ایک طالبعلم انیس الرحمٰن ابھی مسنگ ہیں باقی طالب علم بازیاب ہوئے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اب لانگ ٹرم مسنگ کا معاملہ شارٹ ٹرم مسنگ کی شکل اختیار کر رہا ہے، کسی لیول پر پالیسی میکرز سے کسی نے سوال کیا؟ وہ محسوس نہیں کر رہے کہ کس طرح نفرت بڑھ رہی ہے، ہوں گے ضرور ان میں دہشت گرد بھی، لیکن جو بھی ہونا ہے قانون کے مطابق ہونا ہے، عدالتوں میں بھی اس کا فقدان ہے کہ ہم صرف ریکوری پر فوکس کرتے ہیں۔

وکیل ایما مزاری نے دلائل دیے کہ پہلے لاپتا کرتے ہیں پھر سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیتے ہیں، اب یہ معاملہ پورے ملک میں بڑھ رہا ہے، عدالت کا کہنا تھا کہ ہر ایکشن کا ایک ری ایکشن ہوتا ہے، انہیں نہیں معلوم کہ ایسے اقدامات سے ریاست کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں نے بھی ابھی تک صرف لاپتا افراد کی ریکوری پر فوکس کیا، ہم کبھی اس سے آگے نہیں گئے، اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت پر تین مسنگ پرسنز کے کیسز کا بتایا گیا تھا، اس کا کیا ہوا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 95 میں سے 91 کو ابھی تک ٹریس کیا جا چکا ہے، ہم نے پوری کوشش کی ہے، کوئی بدنیتی شامل نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ بدنیتی کا تو کیس ہی نہیں ہے، یہ تو ریاستی ادارے کے خلاف کیس ہے، کیا کمیٹی بن گئی ہے؟ صرف نوٹیفکیشن ہونا ہے اب؟ ہم نے تو اٹارنی جنرل کی ریکوئسٹ پر کمیٹی کی تشکیل میں تبدیلی کی بھی اجازت دی تھی، ہم نے مسنگ پرسنز کے کیسز کے لیے معاملہ لارجر بینچ کو بھجوایا تھا، احمد فرہاد والے کیس میں کہا تھا جتنے بھی جبری گمشدگی کے کیسز ہوں ان پر لاجر بینچ بنایا جائے، میں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھا ہے وہ لارجر بینچ بنائیں گے، کریمنل جسٹس کمیٹی کی بھی ایک میٹنگ ہوتی ہے جس میں ہم مسائل کو دیکھتے ہیں، ایک کمیٹی ایڈمنسٹریشن سائیڈ پر ہے، اس میں خفیہ اداروں کے سربراہان کو بلائیں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ وہ صرف لاپتا افراد کی حد تک بریف کریں گے، بہت سے کیسز نیشنل سیکیورٹی سے متعلقہ ہیں، ہم ان کو ان کیمرہ کر لیں گے، ہمیں لاپتا افراد کے حوالے سے ان کیمرہ بریفنگ دیں، یہ لاپتا افراد کا ایشو حل ہونا چاہیے ، یہ لاپتا افراد کے مسائل ریاست کے لیے محبت پیدا نہیں کر رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی فیملیز اپنے بچوں کے انتظار میں ہیں۔

عدالت نے ایڈووکیٹ ایمان مزاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مجھے تو یہ نظر آتا ہے یہ ایک لڑکی پورے پاکستان کی طرف سے کھڑی ہے، 95 میں سے 91 افراد جو لاپتا ریکور ہوئے جس دن ان کے بیانات ریکارڈ کریں گے آپ کی آدھی حکومت پراسیکیوٹ ہو جائے گی، یہاں سے ججمنٹ پاس جائے گی مگر ججمنٹ کا اثر ہوتا ہے؟ ہم بین الاقوامی طور پر انسانی حقوق کی خلاف وزری کے ساتھ ٹیگ ہو گئے ہیں، دنیا یہاں انویسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ ٹائم لے لیں لیکن اس معاملے کو حل کریں، اداروں کو اپنا کام کرنا چاہیے یہاں سب جھوٹ بول رہے ہیں۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم نے رپورٹ جمع کروا دی ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ میں اس پر بات نہیں کروں گا میں نے رپورٹ نہیں پڑھی۔

وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ یو اے ای سے بندہ پاکستان آیا ایف آئی اے کے مطابق وہ پاکستان نہیں آیا، جب یو اے ای سے انفارمیشن لی گئی تو ان کے مطابق بندہ پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی سنا گیا ہے؟ ایمان مزاری نے جواب دیا کہ جی بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی یہ کیس سنا گیا ہے، عدالت نے دریافت کیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے کیا کیا؟ وکیل نے بتایا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک آرڈر کیا مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔

عدالت نے مزید استفسار کیا کہ بندہ کیا کرتا ہے، وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ بندہ سماجی کرکن (سوشل ایکٹیوسٹ) ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یو اے ای سے پوچھیں اگر ہمارا بندہ آپ کے پاس ہے، واپس نہیں کیا تو اس کا اثر سفارتی تعلقات پر پڑے گا، میں اس پر تحریر حکم نامہ دوں گا اور اس حوالے سے تفصیلی آرڈر پاس کروں گا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایجنسیز کے کام کرنے کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا۔

یاد رہے کہ 24 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے ہیں کہ جو ادارے قانون کے ماتحت ہیں، وہ تو ریگولیٹ ہو جاتے ہیں، جو قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں ان کی ریگولیشن کیا ہے؟

28 فروری کو بلوچ طلبہ بازیابی کیس میں عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران بیان دیا کہ کوئی احمق ہی جبری گمشدگیوں کی وکالت کرے گا۔

واضح رہے کہ 13 فروری کو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی گزشتہ سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا تھا۔

تاہم 19 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ غیرحاضر رہے، عدالت نے 28 فروری (آج) ہونے والی آئندہ سماعت پر سابق نگران وزیراعظم، نگران وزیر دفاع اور نگران وزیر داخلہ کو ایک بار پھر طلب کرلیا تھا اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024