ہم امارات اور سعودیہ سے معاشی ترقی کے گُر کیوں نہیں سیکھتے؟
حال ہی میں سامنے آیا کہ امریکی ٹیک کمپنی مائیکرو سافٹ، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کمپنی جی 42 میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی۔ جی 42 جوکہ شعبہ مصنوعی ذہانت سے تعلق رکھتی ہے، یہ کیسی کمپنی ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ اسے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری مائیکرو سافٹ کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔ یہ رسید اور تصدیق ہے کہ ان کا کام اچھا اور پکا ہے۔
اس سرمایہ کاری کو حاصل کرنے سے قبل بہت کچھ ہوا۔ اس سال دسمبر میں جی 42 نے اعلان کیا کہ وہ چینی سپلائر سے رابطے منقطع کررہے ہیں اور وہ امریکی ٹیکنالوجی اور آلات استعمال کریں گے۔ امریکا اور چین دونوں کے ساتھ چلنا انہیں مشکل لگ رہا تھا لہٰذا وہ ایک جانب ہوگئے اور حتمی طور پر امریکی ٹیکنالوجی کا انتخاب کرلیا گیا۔
ہمارا دیسی دماغ ہمیں یہی بتائے گا کہ لو استاد! اماراتی چین کے بجائے امریکا کے ساتھ مل گئے ہیں۔ گزشتہ 13 برس میں متحدہ عرب امارات نے چین کے ساتھ بھی اپنے روابط استوار کیے ہیں جن میں مشترکہ فوجی مشقیں، دفاعی سامان کی خریداری اور باہمی تجارت میں اضافہ شامل ہے۔
سب سے اہم اقدام یہ تھا کہ یو اے ای کے ساورن فنڈ نے بیجنگ میں اپنے دفاتر کھولے۔ ساورن فنڈ تقریباً بیس کھرب ڈالرز کا ہے۔ یو اے ای اور چین کی اسٹاک ایکسچینج میں معاہدہ ہوا جس کے تحت یو اے ای چین میں سرمایہ کاری کرے گا یعنی چین کے ساتھ ابوظہبی کے تعلقات بہترین ہیں۔ وہاں کمائی ہوسکتی ہے تو وہ چین میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جبکہ انہیں جس کی ٹیکنالوجی بہتر لگ رہی ہے، اس کے ساتھ معاہدے بھی کررہے ہیں۔
یو اے ای اپنی معیشت کا انحصار توانائی سے کم کرکے نالج بیس اکانومی کی طرف کررہا ہے جبکہ سعودی عرب بھی یہی کررہا ہے۔ سعودی عرب ہائی ٹیک میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے افریقہ میں بہت جارحانہ انداز میں سرمایہ کاری کی ہے جوکہ 112 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ افریقہ میں سرمایہ کاری کے معاملے میں متحدہ عرب امارات، چین سے بھی آگے ہے۔
یو اے ای نے 2020ء میں اسرائیل کے ساتھ ’ابراہام ایکارڈ‘ طے کیا اور اس معاہدے سے فوائد بھی حاصل کیے۔ حال ہی میں ایک دل چسپ پیش رفت ہوئی جس میں یو اے ای نے اپنی ایئر بیس جو پہلے ہی امریکا کے زیرِ استعمال ہے، اس ایئر بیس کو ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد امریکا اپنے جیٹ اور ڈرون قطر کے العدید بیس منتقل کررہا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ یو اے ای کی پالیسی تنازعات سے دور رہنے کی ہے جبکہ یہ پالیسی معیشت کے گرد گھومتی ہے۔
حال ہی میں افغان وزیر خارجہ سراج الدین حقانی نے ابوظہبی کا دورہ کیا اور ان کی اماراتی صدر الشیخ محمد بن زاید النہیان سے ملاقات کی تصویر بھی جاری کی گئی۔ اس ملاقات کی وجوہات کے حوالے سے اندازے بھی لگائے جاتے رہے۔
اس ملاقات پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے بیان جاری کیا کہ ’اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی شکار طالبان حکومت کو سفر کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے ایک طے شدہ عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ اراکین ممالک کے لیے لازم ہے کہ وہ اس عمل کی پابندی کریں‘۔ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ طالبان کے ساتھ ممالک کے تعلقات پیچیدہ ہیں‘۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یو اے ای کو آخر اس ملاقات کی کیا ضرورت تھی؟ ایسی ملاقات جس پر امریکی نے بھی بیان جاری کیا، تو اس کا جواب ہے معیشت۔ مائیکرو سافٹ نے جس جی 42 میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے، وہی جی 42 افغانستان کے چار ایئر پورٹس کا انتظام چلانے والی گاک ہولڈنگ کی بھی پارٹنر ہے۔ یہ چار ایئرپورٹ کابل، مزار شریف، ہرات اور قندھار میں واقع ہیں۔
سراج الدین حقانی جوکہ افغان وزیر داخلہ ہیں، ان کی وزارت کے پاس بہت سے لائسنسز جاری کرنے کا اختیار ہے۔ افغانستان کی مائننگ سائٹس کا انتظام بھی اسی وزارت کے اختیار میں ہے۔ افغانستان میں بیرونی سرمایہ کار یا امدادی ادارے آئیں گے تو ان اداروں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کمپنیاں بھی آئیں گی، ان سیکیورٹی کمپنیوں کو لائسنس بھی حقانی کے دستخط سے ہی جاری ہوں گے۔ حالیہ دنوں میں لائسنسز کے اجرا کے لیے کمپنیز کو شارٹ لسٹ کیا جارہا ہے۔ یورپی، کینیڈین اور اماراتی کمپنیاں اس میں حصہ لے رہی ہیں یعنی ملاقات کا تعلق صرف معیشت اور اس سے جڑے معاملات سے تھا۔
متحدہ عرب امارات کی قیادت جس طرح تنازعات سے دور رہ کر اپنی ترقی پر توجہ دیتی ہے، اپنے فائدے اور مستقبل کے لیے جڑے ہر منصوبے کے لیے درکار ہر ضروری عمل کر گزرتے ہیں، اس میں ہمارے ملک کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔
معیشت سے جڑے معاملات میں شہزادہ تہنون بن زاید بہت خاموشی سے پس پردہ رہ کر سرگرم رہتے ہیں۔ وہ امارات کے سیکیورٹی مشیر ہیں اور انٹیلی جنس کو بھی دیکھتے ہیں اور انویسٹمنٹ فنڈ کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ حال ہی میں یو اے ای کی اتحاد ایئر لائنز جو انہیں کی زیرِ نگرانی ہے، اس کا افغانستان کی کام ایئر کے ساتھ معاہدہ بھی طے ہوا ہے۔
قطر، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، ایسے ممالک ہیں جہاں معاشی مسائل اور معاملات حل کرتے ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جو سیکیورٹی اور انٹیلی جنس پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ ترک وزیر خارجہ بھی 13 سال تک ترک انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
باقی سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔ نام لیتے، موازنہ کرتے اپُن بالکل نہیں گھبرا رہا بس ویسے ہی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔