• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

عدت نکاح کیس: عمران خان و اہلیہ کی سزا معطلی کی درخواست پر 10 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت

شائع June 13, 2024
—فائل فوٹو: فیس بک/عمران خان
—فائل فوٹو: فیس بک/عمران خان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر 10 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈان نیوز کے مطابق غیر شرعی نکاح کیس کو سیشن جج شاہ رخ ارجمند کو واپس بھیجنے کی کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، مدعی مقدمہ خاور مانیکا کی جانب سے رضوان عباسی عدالت کے روبرو حاضر ہوئے۔

دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے کہ 2 سیشن ججز اسلام آباد میں ہیں تو ایڈیشنل سیشن جج کو کیس کیوں منتقل کردیا گیا؟ میری عدالت سے یہی استدعا ہے کہ اس معاملے کو ہائی کورٹ خود ہی سن لے، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے 29 مئی کو فیصلہ سنانا تھا، یا تو ہائی کورٹ اس معاملے کو شاہ رخ ارجمند کو کیس واپس بھیج دیں اور اگر شاہ رخ ارجمند کو نہیں واپس کیا جارہا تو ہائی کورٹ خود اس کیس کو سن لے۔

ان کا کہنا تھا کہ ورنہ اس کیس کو سیشن جج ویسٹ کے پاس بیجھا جائے نہ کہ ایڈیشنل سیشن جج کو، کیس کو سیشن جج ویسٹ کو بھیجنے پر ٹائم فریم بھی دیا جائے۔

اس موقع پر جج نے دریافت کیا کہ ٹائم فریم کس لیے؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ٹائم فریم اپیل کو مقررہ وقت میں سننے کے لیے دیں۔

بعد ازاں خاور مانیکا کے وکیل رضوان عباسی نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ درخواست گزار ٹرائل کورٹ سے سزا یافتہ ہے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سیشن جج ایسٹ نے اپیل سنی ہے، سیشن جج کے اوپر عدم اعتماد کی درخواست ایک بار خارج ہوچکی تھی، سیشن جج ایسٹ پر دوبارہ عدم اعتماد پر انہوں نے فیصلہ سنانے سے معذرت کرلی تھی، سیشن جج کی معذرت پر ہائی کورٹ نے جوڈیشل سائیڈ پر معاملے کا فیصلہ کیا، جوڈیشل سائیڈ کے معاملے پر سنگل جج فیصلہ نہیں کرسکتا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیشن جج کے آرڈر شیٹ میں چیزیں واضح ہوگئی ہے، سیشن جج نے چیف جسٹس کو لکھا اور چیف جسٹس نے فیصلہ کیا، اگر اس کیس کو واپس بھی کیا جائے تو کیا ہوگا؟

اس موقع پر رضوان عباسی نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعا کردی۔

عدالت نے رضوان عباسی سے استفسار کیا کہ اس کیس کو مکمل کرنے کے لیے کتنا وقت چاہیے ہوگا؟

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی کیس منتقلی کی درخواست خارج کرتے ہوئے سیشن جج افضل مجوکہ کو سزا معطلی کی درخواست پر 10 دنوں میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔

ساتھ ہی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس میں مرکزی اپیلوں پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم بھی دے دیا۔

واضح رہے کہ 11 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدت نکاح کیس کا فیصلہ سیشن جج شاہ ر خ ارجمند کو واپس بھیجنے کی سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت ملتوی کردی، سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ جب جج نے خود کیس سننے سے معذرت کرلی تو کیسے کیس واپس بھیجا جاسکتا ہے؟

29 مئی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت میں نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر جج شاہ رخ ارجمند نے کیس سننے سے معذرت کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو مقدمہ دوسری عدالت منتقل کرنے کا خط لکھ دیا تھا۔

خاور مانیکا نے سیشن جج سے مکالمہ کیا تھا کہ ہمارا کیس کسی اور عدالت میں ٹرانسفر کر دیں، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کی درخواست پہلے بھی خارج ہو چکی ہے۔

اس پر خاور مانیکا نے جج سے کہا کہ میں آپ سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا، جج نے دریافت کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

خاورمانیکا نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم مگر بانی پی ٹی آئی نے پچھلی عدالتوں میں بھی ایسا ہی کیا، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ ایک بات چیت ہوتی، کچھ ٹھوس وجہ ہے تو بتائیں؟

خاور مانیکا نے کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی کارکنان کی نقل اتارتے ہوئے کہا کہ جج بیٹھے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی والے ناچ رہے۔

3 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔

خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔

خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔

انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔

خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔

درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔

خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔

28 نومبر کو ہونے والی سماعت میں نکاح خواں مفتی سعید اور عون چوہدری نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں خاور مانیکا کے گھریلو ملازم اور کیس کے گواہ محمد لطیف نے بیان قلمبند کرایا تھا۔

11 دسمبر کو عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس کو قابلِ سماعت قرار دے دیا تھا۔

2 جنوری 2024 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 جنوری کی تاریخ مقرر کی۔

10 جنوری اور پھر 11 جنوری کو بھی فردِ جرم عائد نہ ہوسکی تھی جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کردی تھی۔

15 جنوری کو بشریٰ بی بی اور 18 جنوری کو عمران خان نے غیرشرعی نکاح کیس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

تاہم 16 جنوری کو غیر شرعی نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فردِ جرم عائد کردی گئی تھی۔

31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس خارج کرنے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

2 فروری کو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف غیرشرعی نکاح کیس کا فیصلہ 14 گھنٹے طویل سماعت کے بعد محفوظ کر لیا گیا تھا۔

3 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غیر شرعی نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024