بجٹ 25-2024: دفاعی اخراجات کیلئے 21 کھرب 20 ارب روپے مختص
حکومت نے مالی سال 25-2024 میں مسلح افواج کے لیے 17.6 فیصد کے نمایاں اضافے کے بعد 21 کھرب 20 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگلے مالی سال میں مسلح افواج کے لیے مختص رقم جی ڈی پی کا 1.7 فیصد ہے، گزشتہ برس بھی یہی تناسب رکھا گیا تھا، مجوزہ اخراجات متوقع جاری اخراجات کا 12.33 فیصد ہیں۔
دفاعی اخراجات میں یہ نمایاں اضافہ 6 سالوں میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ہے، جو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے اپنے 18-2023 کے آخری سال میں 18 فیصد اضافے کیا تھا، پچھلے سال کے 15 فیصد اضافے کے بعد یہ مسلح افواج کے لیے بلند فنڈنگ کا مسلسل دوسرا سال بھی ہے، جو روایتی طور پر 11 فیصد سالانہ اضافے سے ہٹنے کا عندیہ ہے، یہ رجحان گزشتہ دہائی میں دیکھا گیا۔
حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ مسلح افواج نے گزشتہ سال کے مختص کیے گئے 18 کھرب روپے سے قدرے تجاوز کیا، اور 18 کھرب 30 ارب روپے خرچ ہوئے۔
تاہم مختص رقم ملک کے حقیقی فوجی اخراجات کی ایک نامکمل تصویر پیش کرتی ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے لیے مختص 662 ارب روپے کی رقم مسلح افواج کے لیے مختص کے تقریباً 31 فیصد کے برابر ہے، دفاعی بجٹ سے نہیں، بلکہ حکومت کے جاری اخراجات سے نکالی جائے گی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں اور میزائل پروگراموں کے لیے بڑے فوجی حصول اور فنڈنگ کی مالی اعانت الگ الگ چینلز کے ذریعے کی جاتی ہے، جو کلاسیفائیڈ بجٹ کے تحت چھپائی جاتی ہے، اس وجہ سے فوجی اخراجات کی اصل رقم غیر واضح ہے۔
تینوں سروسز اور انٹر سروسز آرگنائزیشنز کا حصہ 2019 سے کافی یکساں رہا ہے، جس میں آرمی کو 47.5 فیصد، پاکستان ایئر فورس کو 21.3 فیصد، نیوی کو 10.8 فیصد اور انٹر سروسز آرگنائزیشنز کے لیے 20.3 فیصد مختص کیا گیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رواں سال کے بجٹ میں ایک منفرد نمونہ پیش کیا گیا، اور آرمی، ایئر فورس، نیوی اور انٹر سروسز آرگنائزیشنز کے لیے مختص رقم میں 22.3 فیصد کا مساوی فیصد اضافہ ہوا۔
مختص رقم کو فعال طور پر چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں ’ملازمین سے متعلقہ اخراجات (سروس مین کی تنخواہوں اور الاؤنس کے لیے رقم)‘، ’آپریٹنگ اخراجات (ٹرانسپورٹیشن کی لاگت، ایندھن، راشن، میڈیکل اخراجات، ٹریننگ و دیگر ضروری خدمات)‘، فزیکل اثاثے (اسلحہ و گولہ باورد و دیگر ساز و سامان کی خریداری)’ اور ’سول ورکس (موجودہ بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنے اور نئے تعمیراتی منصوبوں کے لیے رقم)‘ شامل ہیں۔
مالی سال 25-2024 کے دفاعی بجٹ میں سب سے زیادہ اضافہ سول ورکس کیٹیگری میں کیا گیا، جس کے لیے 25 فیصد اضافے کے بعد 244 ارب 80 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، اس کے بعد فزیکل اثاثہ جات کے لیے 548 ارب 60 مختص کیے گئے ہیں، یہ 18.8 فیصد اضافہ ہے، جبکہ آپریٹنگ اخراجات کے لیے 15.6 فیصد اضافے کے بعد 513 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس اضافے کے باوجود ملازمین سے متعلقہ اخراجات مسلح افواج کے بجٹ کا سب سے بڑا (39 فیصد) حصہ ہے، فزیکل اثاثے اور آپریٹنگ اخراجات کے لیے 25.8 فیصد اور 25 فیصد رقم خرچ ہوگی، جبکہ سول ورکس کا دفاعی بجٹ میں حصہ 11.5 فیصد ہے، یہ قابل ذکر ہے کہ اگرچہ فزیکل اثاثوں اور سول ورکس کے لیے مختص کیے گئے تناسب میں گزشتہ برسوں کے دوران تھوڑا سا فرق آیا ہے، لیکن ملازمین سے متعلقہ اخراجات اور آپریٹنگ اخراجات کے شیئرز میں مسلسل اضافہ کا رجحان دکھایا گیا ہے۔
حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ فعال تنازعات کی عدم موجودگی کے باوجود ملک کو مشرقی پڑوسی سے ایک مستقل خطرہ محسوس ہوتا ہے، لیکن افغانستان سے شروع ہونے والی سرحد پار عسکریت پسندی سے ایک زیادہ اہم چیلنج ابھر کر سامنے آیا ہے، جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی کالعدم تنظیموں کے ذریعے چلائی جانے والی اندرونی عسکریت پسندی کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔
مزید برآں، چینی سرمایہ کاری کو خاص طور پر سی پیک کے تحت حفاظت کو یقینی بنانا، چینی شہریوں اور منصوبوں پر بار بار ہونے والے حملوں کے اقتصادی اور سیاسی مضمرات کے پیش نظر ایک اعلی ترجیح ہے، جو چین کے ساتھ پاکستان کے اہم تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔