• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

پاکستان کو ٹیکس چھوٹ کی مد میں 39 کھرب روپے کا نقصان

شائع June 12, 2024
فائل فوٹو
فائل فوٹو

مالی مشکلات کے شکار پاکستان میں ایک سال کے دوران ٹیکس چھوٹ یا رعایتوں میں اب تک کا سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا، جس میں مالی سال 24-2023 کے دوران 73.24 فیصد یا 16 کھرب 40 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی طرف سے جاری کردہ پاکستان اکنامک سروے 24-2023 کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مالی سال 2023 کے 22 کھرب 39 ارب روپے کے مقابلے مالی سال 2024 میں ریکارڈ 38 کھرب 79 ارب کی چھوٹ دی، حکومت کے اس دعوے کے باوجود ٹیکس چھوٹ کی لاگت میں لگاتار چھٹے سال اضافہ ہوا ہے۔

ٹیکس چھوٹ میں نمایاں اضافہ بنیادی طور پر مقامی طور پر فراہم کردہ اور درآمد شدہ پیٹرولیم، تیل، اور لبریکنٹس پر 13 کھرب 38 ارب روپے کی چھوٹ کی وجہ سے ہے، یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے کیونکہ وفاقی حکومت پہلے ہی پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کے ذریعے زیادہ رقم جمع کر چکی ہے۔

جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت جو اخراجات برداشت کرتی ہے، وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ان ٹیکس چھوٹ پر تشویش ہے اور اس نے حکومت سے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، بجٹ 25-2024 میں ٹیکس چھوٹ کی اصل تعداد سامنے آئے گی، جو ایف بی آر کے ریونیو اہداف کو پورا کرنے کے لیے ختم کی جائیں گی۔

ٹیکس چھوٹ کی قدر میں گزشتہ سالوں کے دوران مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مالی سال 2018 میں یہ اضافہ 540.98 ارب روپے تھا، جو مالی سال 2019 میں 972.4 ارب روپے ہوا اور پھر مالی سال 2020 میں 14 کھرب 90 ارب تک جا پہنچا، مالی سال 2021 میں ٹیکس چھوٹ میں تھوڑی سی کمی دیکھی گئی، اور یہ اضافہ 13 کھرب 14 ارب پر آگیا، جب کہ مالی سال 2022 میں اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا اور یہ 17 کھرب 57 ارب تک جا پہنچا، صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے یہ ٹیکس چھوٹ تمام شعبوں تک پھیلائی گئیں، ٹیکس میں چھوٹ ریاست کی طرف سے مختلف صنعتوں اور گروپس کو مختلف زمروں کے تحت حاصل ہونے والی آمدنی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات پر چھوٹ

مالی سال 2024 کے دوران پیٹرولیم اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کے نتیجے میں قومی خزانے کو 12 کھرب 57 ارب روپے کا نقصان ہوا، حکومت نے اس نقصان کی تلافی کے لیے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کے ذریعے تقریباً اتنی ہی رقم اکھٹی کی، تاہم اس میں زیادہ نقصان صوبوں کے لیے ہوا کیوں کہ پی ڈی ایل قابل تقسیم پول کے تحت صوبوں میں تقسیم نہیں ہوتا اور یہ صرف مرکز کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔

مالی سال 2024 میں پی او ایل پر درآمدی مرحلے میں سیلز ٹیکس چھوٹ کی لاگت 81.22 ارب روپے بتائی گئی۔

حکومت ٹیکس چھوٹ کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے موبائل فون پر سیلز ٹیکس میں اضافہ کرسکتی ہے، مالی سال 2024 کے دوران موبائل فون پر ٹیکس چھوٹ کی لاگت 33.057 ارب روپے بتائی گئی، مالی سال 2024 کے ابتدائی 10 ماہ میں موبائل فونز کی درآمد 1.462 ارب ڈالر تھی، جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 47 کروڑ 328 لاکھ ڈالر سے زیادہ تھی، یعنی اس میں 209 فیصد اضافہ ہوا۔

انکم ٹیکس کی چھوٹ میں 12.51 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو مالی سال 2023 میں 423.894 ارب روپے تھی، اور مالی سال 2024 میں بڑھ کر 476.96 ارب روپے تک پہنچ گئی، یہ اضافہ بنیادی طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس کے دوسرے شیڈول کے حصہ ون کے تحت آمدنی پر مکمل چھوٹ کی وجہ سے ہوا، جس سے مالی سال 2024 میں 26.27 فیصد اضافے کے ساتھ خزانے پر 293.46 ارب روپے لاگت آئی، پچھلے سال یہ لاگت 232.39 ارب روپے تھی۔

یہ اضافہ حکومتی آمدنی پر چھوٹ کی وجہ سے ہوا، جس کی لاگت مالی سال 2024 میں 57.52 ارب روپے تھی، انکم ٹیکس میں کاروباری افراد کو ٹیکس کریڈٹ کی لاگت مالی سال 2024 میں 53.24 فیصد کم ہو کر 24.374 ارب روپے رہ گئی جو گزشتہ سال 52.13 ارب روپے تھی۔

مجموعی طور پر مالی سال 2024 میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ 120.86 فیصد بڑھ کر 28 کھرب 58 ارب روپے ہو گئی جو مالی سال 23 میں 12 کھرب 94 ارب روپے تھی، تاہم، حکومت نے صارفین سے اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا ہے اور یکم مارچ 2023 سے دیگر مصنوعات پر چھوٹ بھی واپس لے لی ہے۔

زیرو ریٹڈ کی لاگت

مال سال 2024 میں ففتھ شیڈول کے تحت زیرو ریٹڈ چھوٹ کی لاگت میں 47.76 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ لاگت بڑھ کر 206.05 ارب روپے ہوگئی جو مالی سال 2023 میں 139.44 ارب روپے تھی، یہ اضافہ حکومت کی جانب سے 5 ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹرز اور کچھ دیگر شعبوں کے لیے زیرو ریٹیڈ ریجیمز میں نرمی کے باعث ہوا، مالی سال 19-2018 ان 5 شعبوں سے متوقع آمدنی کا نقصان 87 ارب روپے تھا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024