عدت نکاح کیس: بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر اعتراضات دور، سماعت ملتوی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر شرعی نکاح کیس میں سزا معطلی کی بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت اعتراضات دور کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، بشریٰ بی بی کی جانب سے سلمان صفدر، عثمان ریاض گل و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ سلمان اکرم راجا کے دلائل کے بعد میرا کیس مزید آسان ہوگیا، کہ کس طرح غیر شرعی نکاح کا فیصلہ تین دنوں میں سنایا گیا، میری مؤکل کو 7 سال قید کی سزادی گئی تھی، ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر سیشن کورٹ میں تین ماہ لگ گئے۔
وکیل نے کہا کہ درخواست گزار ایک ضعیف العمر خاتون ہیں، نہ ضمانت دی جارہی ہے اور نہ ہی فیصلہ سنایا جارہا ہے۔
اس موقع پر بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر کیا کہیں گے آپ ؟ سلمان صاحب آپ کی استدعا تو بہت معمولی ہے، جو آپ مانگ رہے ہیں ایسی کوئی مثال ہے؟ وکیل نے بتایا کہ پاکستان میں بہت کم ہیں، مگر بھارت میں ایسے بہت سی مثالیں ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سلمان صاحب معاملات کو آسانی سے لے کر چلا کریں، سلمان صفدر نے بتایا کہ سر راجا صاحب اور ہم ایک پیج پر ہیں، سیشن جج کے بجائے ایڈیشنل سیشن جج کو کیس نہیں جاسکتا، اگر دو دن میں رات گئے تک ٹرائل مکمل کیا جاسکتا ہے تو اپیل بھی مکمل ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے توشہ خانہ تحائف کیس کی سزا تیس سیکنڈ میں معطل کردی تھی۔
بعد ازاں عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی۔
8 جون سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست دائر کر دی تھی۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
28 نومبر کو ہونے والی سماعت میں نکاح خواں مفتی سعید اور عون چوہدری نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔
5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں خاور مانیکا کے گھریلو ملازم اور کیس کے گواہ محمد لطیف نے بیان قلمبند کرایا تھا۔
11 دسمبر کو عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس کو قابلِ سماعت قرار دے دیا تھا۔
2 جنوری 2024 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 جنوری کی تاریخ مقرر کی۔
10 جنوری اور پھر 11 جنوری کو بھی فردِ جرم عائد نہ ہوسکی تھی جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کردی تھی۔
15 جنوری کو بشریٰ بی بی اور 18 جنوری کو عمران خان نے غیرشرعی نکاح کیس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
تاہم 16 جنوری کو غیر شرعی نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فردِ جرم عائد کردی گئی تھی۔
31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس خارج کرنے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
2 فروری کو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف غیرشرعی نکاح کیس کا فیصلہ 14 گھنٹے طویل سماعت کے بعد محفوظ کر لیا گیا تھا۔
3 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غیر شرعی نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔