• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی ٹربیونل تبدیلی کی درخواستیں قابل سماعت قرار

شائع June 4, 2024
—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے ٹربیونل ججز کی تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی۔

ڈان نیوز کے مطابق درخواستوں پر سماعت 6 جون کو کی جائے گی، فریقین کو نوٹسز بھی جاری کردیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹریبونل جج کی تبدیلی کی درخواستوں پر فیصلہ جاری کیا، الیکشن کمیشن نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

واضح رہے کہ آج ہی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

درخواست گزار طارق فضل چوہدری کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوڈ آف سول پراسیجر (سی پی سی) کے مطابق ٹربیونل الیکشن کمیشن کے اختیارات کے ماتحت ہے، ایک امیدوار نے جیب سے دستاویز نکالی اور اسے ٹربیونل نے مان بھی لیا، میں ٹربیونل کی زبان پر نہیں جاؤں گا قانونی نقطے پر رہوں گا، ہم پیش نہیں ہوئے تو جرمانے شروع کردیے گئے، جو ریمارکس دیے گئے ان پر بھی بات نہیں ہوسکتی، فارم 45 جو پیش کیا گیا اس کو کراس چیک کرنے کے بجائے مان لیا گیا۔

وکیل نے بتایا کہ کوئی قانونی ضابطہ نہیں اپنایا گیا اور پروسیڈنگ شروع کردی گئی، اس پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے دریافت کیا کہ آپ کہنا چارہے ہیں کہ گواہ پیش کرتے اور اسے کراس چیک کیا جاتا؟ وکیل نے جواب دیا کہ ٹرائل شروع نہیں ہوا اور ججمنٹ دی جانے لگی۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کا ایشو کیا ہے کیا ٹربیونل کا فیصلہ آنے جا رہا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ فیصلہ تو ایک قسم کا دیا جاچکا ہے، الیکشن ایکٹ کمیشن کو پاور دیتا ہے کہ کسی وقت بھی ٹربیونل نیا بنایا جاسکتا ہے اور تبدیل کیا جاسکتا ہے، ہم تو کہتے ہیں زیادہ ٹربیونل بننے چاہیے تھے، کسی معزز ریٹائر جج کو ذمہ داری دی جاتی تو بہتر ہوتا، جلدی میں کیس لے کر چلا جارہا ہے، الیکشن کمیشن کسی بھی پہلو پر کاونٹر بیلٹ باکسز چیک کرسکتا ہے، ہماری استدعا ہے کہ ٹربیونل کی کارروائی کو فوری روکا جائے۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ کس قانون کے تحت کارروائی روکی جاسکتی ہے؟ آپ نے تبادلے کا تو کہا ہے، وکیل نے جواب دیا کہ سی پی سی کے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس ہیں، الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن جتنے چاہے ٹربیونل قائم کرسکتا ہے، ہائی کورٹ کا رجسٹرار دفتر کیسے ان درخواستوں کو لے سکتا ہے؟ ٹربیونل کی جانب سے کس طرح کارروائی کی گئی یہ ہی کافی ہے ٹربیونل تبدیلی کے لیے، کسی قانون کے تحت ٹربیونل نے ہدایات کی کہ یہ ثبوت لے کر آئیں؟

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، الیکشن کمیشن دو گھنٹے بعد فیصلہ سنائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعلان کردہ فاتحین نے وفاقی دارالحکومت کے واحد پول ٹربیونل کے سامنے زیر التوا انتخابی درخواستوں کو ’کسی دوسرے ٹریبونل‘ میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

یہ پیشرفت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک متنازع آرڈیننس جاری کیے جانے کے بعد سامنے آئی جس کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے طور پر ریٹائرڈ ججوں کی تقرری کے لیےالیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے۔

چونکہ اسلام آباد میں واحد ٹربیونل ہے اس لیے مقدمات کو دارالحکومت سے باہر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

این اے 46، این اے 47 اور این اے 48 سے کامیاب قرار دیے گئے امیدوار انجم عقیل خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور راجا خرم شہزاد نے اپنی درخواستوں میں نہ صرف ان کے خلاف الیکشن پٹیشن کسی دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ ان کی درخواستوں کے حتمی نتائج آنے تک الیکشن ٹریبونل کے سامنے کارروائی روکنے کی بھی استدعا کی ہے۔

قانونی صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک ہی الیکشن ٹریبونل ہے اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن مقدمات کو اسلام آباد سے باہر کسی ٹربیونل میں منتقل نہیں کر سکتا اور ریٹائرڈ ججوں کو بطور الیکشن ٹربیونل تعینات کرنے کا اختیار دینے والے آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

درخواست گزاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں ٹربیونل سے انصاف نہیں ملے گا جہاں ان کے مقدمات زیر التوا ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کا حق انصاف کا سنگ بنیاد ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل 10 اے کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن میں کچھ قانونی خامیاں اور نقائص ہیں جو کہ کافی اہم نوعیت کے ہیں اور انتخابی پٹیشن کو خارج کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم، اس کا کہنا ہے کہ ٹربیونل نے نہ صرف الیکشن پٹیشن کے تمام مدعا علیہان کو طلب کیا بلکہ سماعت کی پہلی ہی تاریخ میں متعلقہ حکام سے الیکشن کا پورا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن کا درخواست گزار بد نیتی کے ساتھانہیں قانونی حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 17 نومبر 2024
کارٹون : 16 نومبر 2024