چینی فرم کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی بحالی کیلئے کوشاں
وزیراعظم شہباز شریف کے اہم دورے پر بیجنگ پہنچنے سے چند روز قبل ایک چینی کمپنی نے تقریباً تین سال سے التوا کا شکار ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2.5 ارب ڈالر کے کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ (کے ایچ پی پی) کے چینی اسپانسرز نے آزاد کشمیر میں دریائے جہلم پر تعمیر کیے جانے والے ایک ہزار 124 میگاواٹ کے منصوبے کے حوالے سے کئی مطالبات کیے۔
پاکستان اس منصوبے کو 700 میگاواٹ کے آزاد پتن ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ساتھ بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے، جو آزاد کشمیر میں بھی تعمیر کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔
قابل تجدید توانائی کے منصوبے اور بجلی کی پیداوار کے لیے مقامی وسائل کا استعمال چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور اسلام آباد کے طویل مدتی منصوبے کا اہم حصہ تھے۔
چائنا ایکسپورٹ اینڈ کریڈٹ انشورنس کارپوریشن (سائنوسر) 550 ارب روپے سے زائد کے واجبات کے باعث اس منصوبے کو انشورنس کور فراہم کرنے سے گریزاں تھی، جس کی وجہ سے منصوبے میں تاخیر ہوئی، یہ رقم پاکستانی پاور کمپنیوں کی جانب سے چینی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پی پیز) کو ادا کرنا تھا۔
حال ہی میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر اعظم آفس نے منصوبے کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کر دیں، جب کہ سی پیک جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے دوران پاکستان کو چینی قیادت کی طرف سے مثبت جواب ملا، اور سائنوسر نے مبینہ طور پر دونوں پروجیکٹ اسپانسرز سے کہا کہ وہ سرمایہ کاری اور انشورنس کوریج کے لیے نئے خطوط لکھیں۔
تازہ مطالبات
تاہم، وزیراعظم کے دورہ چین سے قبل، چائنا تھری گورجز کارپوریشن (سی ٹی جی) نے مطالبہ کیا کہ لیٹر آف سپورٹ (ایل او ایس) اور فنانشل کلوز ڈیڈ لائن کو 2024 کے بجائے 30 ستمبر 2027 تک بڑھایا جائے۔
سی ٹی جی کی ذیلی کمپنی کوہالہ ہائیڈرو کمپنی کے سی ای او لیو یونگگم نے پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ پاور پالیسی کے تحت اسے دگنا کرنے کے بجائے پچھلی بینک گارنٹی کو برقرار رکھا جائے اور توسیع فیس کو معاف کیا جائے۔
جمعہ کو جاری کردہ خط میں کہا گیا کہ سی ٹی جی نے ککے ایچ پی پی سے متعلق اہم مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔
خط میں دعویٰ کیا گیا کہ کے ایچ پی پی دسمبر 2018 میں فنانشل کلوزنگ حاصل کرنے کے لیے پوری طرح تیار تھا، اور اس نے انجینئرنگ، پروکیورمنٹ، اور کنسٹرکشن (ای پی سی) کنٹریکٹ اور انجینئرز کنٹریکٹ پر عملدرآمد کیا اور تعمیر شروع کرنے کے لیے مشینری کو متحرک کیا تھا۔
خط میں مزید کہا گیا کہ چینی اور مقامی کارکنان اور انجینئرز سائٹ پر موجود تھے، ابتدائی تعمیراتی سرگرمیاں اس وقت شروع ہو چکی تھیں جب منصوبے کو ”حکومت آزاد جموں و کشمیر کی جانب سے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے غلط طور پر منسلک ماحولیاتی خدشات کی وجہ سے غیر متوقع طور پر روک دیا گیا تھا۔“
اس کے بعد، آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کو حل کرنے میں تین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا، جس کے نتیجے میں تاخیر ہوئی۔
چینی عہدیدار نے خط میں کہا کہ منصوبے کے زیادہ تر اہم مسائل حل ہوچکے ہیں اور 2020 اور 2021 میں سہ فریقی پاور پرچیز ایگریمنٹ اور پانی کے استعمال کے معاہدوں جیسے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے۔
رکاوٹوں کی وجہ سے، “کوہالہ ایچ پی پی میں چائنا ایکسپورٹ اینڈ کریڈٹ انشورنس کارپوریشن کی قرض دہندگان کو انشورنس فراہم کرنے میں دلچسپی کم ہو گئی ہے۔
خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ سابقہ سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے تھے، جس کی وجہ سے نئے اسپانسر تلاش کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
یہ منصوبہ آزاد جموں و کشمیر میں ہونے کی وجہ سے کمپنی کو فنڈنگ کے متبادل ذرائع کو محفوظ کرنے کے لیے اضافی وقت درکار ہے۔ فی الحال، سی ٹی جی کو 2.5 ارب ڈالر کی مالی اعانت حاصل کرنے اور چائنا ایکسپورٹ اینڈ کریڈٹ انشورنس کارپوریشن سے انشورنس کوریج حاصل کرنے کا کام سونپا گیا ہے، اس لیے منصوبے میں تین سال کی توسیع کے لیے زور دیا جا رہا ہے۔
مزید برآں، چینی فریق نے تکنیکی، مالیاتی اور ماحولیاتی مضمرات کے ساتھ کئی اہم مسائل بھی اٹھائے ہیں، جنہیں فنانشل کلوزنگ کو حاصل کرنے سے پہلے حل کرنا ضروری ہے۔
اس میں کہا گیا کہ کمپنی کو اس منصوبے کے لیے 8,600 کنال اراضی کی ضرورت ہے، جس میں سے 4,607 کنال اراضی ایکوائزیشن ایکٹ 1894 کے تحت حاصل کی جا چکی ہے۔