• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی کیلئے تعینات اسٹیٹ کونسلز کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت

شائع May 22, 2024
فائل فوٹو: ایکس
فائل فوٹو: ایکس

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس تعینات دونوں اسٹیٹ کونسلز کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سماعت کر رہے ہیں، ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی عدالت میں پیش ہوئے۔

ذوالفقار نقوی نے بتایا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ والدہ کی طبیعت خرابی کے باعث نہیں آسکے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے آج کوئی متفرق درخواست بھی دائر کی ہے؟ ذوالفقار نقوی نے بتایا کہ جی اضافی دستاویزات جمع کرانے کی درخواست دائر کی ہے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ آج شاہ صاحب نہیں آسکے، کل انہوں نے تقریباً اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اللہ حامد علی شاہ کی والدہ کو صحتیاب کرے، آپ اس درخواست پر کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

ذوالفقار نقوی نے جواب دیا کہ جی ہم نے بیان کا ٹرانسکرپٹ جمع کرانا ہے، ٹرانسکرپٹ کیا ہے؟ اضافی شواہد کے اپیل سے متعلقہ ہونے کو عدالت نے دیکھنا ہوتا ہے، ہمیں کیا پتا کہ اضافی شواہد ضروری ہیں یا نہیں ہیں؟ اپیلیں اب حتمی مرحلے میں ہیں، کل شاہ صاحب نے کہا تھا کہ وہ آج اپنے دلائل مکمل کر لیں گے، آپ نے درخواست دے دی، آپ کا حق ہے، ہم اس کو دیکھ لیں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے ان اپیلوں کو دو تین مہینے التوا کا شکار رکھنا ہے؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس درخواست کو اور مرکزی اپیل کو بھی پیر یا منگل کے لیے رکھ لیں۔

اس پر وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ میں اس کو بالکل برداشت نہیں کروں گا، ذوالفقار نقوی نے بتایا کہ آئندہ سماعت پر حامد علی شاہ نہ آئے تو میں دلائل دے لوں گا۔

جسٹس عامر فاروق نے ذوالفقار نقوی کو ہدایت دی کہ حامد علی شاہ سے کہیں کل آجائیں، ورنہ آپ ہی دلائل دیں، ذوالفقار نقوی نے استدعا کی کہ مجھے دو دن کا وقت دے دیں۔

بعد ازاں سائفر کیس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے تعینات کیے گئے سرکاری وکیل عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل کو دو سرکاری وکیل کے ساتھ پیش ہونے کا کہا تھا، اسٹیٹ کونسلز کی تعیناتی کب ہوئی تھی؟ اس پر اڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ 26 جنوری 2024 کو عدالت کی درخواست پر دو سرکاری وکیل تعینات کیے گئے۔

عدالت نے دریافت کیا کہ دونوں اسٹیٹ کونسلز نے کب سے سماعت میں حصہ لیا؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ 27 جنوری 2024 کو دونوں اسٹیٹ کونسلز پہلی بار عدالت کے سامنے پیش ہوئے، عدالت نے سرکاری وکیل سے دریافت کیا کہ جب آپ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو آپ نے کیا کیا؟ وکیل نے بتایا کہ 27 جنوری کو ہی ہم نے عدالت کے کہنے پر جرح کی۔

اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمٰن نے بتایا کہ 26 جنوری کو ہمیں فائل ملی اور 27 جنوری کو ہم نے جرح کیا، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جرح کے لیے کوئی ٹائم لیا تھا؟ اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ نہیں ہمیں فائل ملی تو ہم نے اسی پر جرح کرلی، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ساری فائل ملنے سے کیا مطلب ہے؟ اس میں کیا تھا؟

بعد ازاں سائفر کیس میں اسٹیٹ کونسلز کی تعیناتی سے متعلق عدالتی خط بینچ کے سامنے پیش کردیا گیا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ جیل ٹرائل تھا تو مجھے جیل اتھارٹی کی جانب سے واٹس ایپ میسج آیا تھا۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو اسٹیٹ کونسلز کی تعیناتی سے متعلق ٹرائل کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 27 جنوری کو آپ پیش ہوئے، مگر ہم کیسے مانے کہ آپ کو فائل ملی تھی؟ فائل آپ کو ملی اور اسی دن بنا تیاری کے جرح کرلی، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کیس میں تو کوئی بڑا اور لائق وکیل بھی ہوتا تو شاید فائل پڑھنے کے لیے دو ہفتے کا وقت مانگ لیتا، جرح کرنے کے لیے آپ کی ڈیوٹی کس کے لیے تھی؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ میری ڈیوٹی عدالت اور میرے موکل کے لیے تھی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو پوری فائل پڑھنی تھی، کیسے آپ نے بغیر وقت لیے جرح کرلی؟ انہوں نے سرکاری وکیل سے دریافت کیا اس کیس کی فائلیں آپ کو کب ملیں؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ مجھے کیس سے متعلق 26 جنوری کو فائل ملی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ کو فائل کہاں سے آئی تھی؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جیل ٹرائل تھا تو مجھے جیل اتھارٹی نے فائل بھیجی تھی،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کیس فائل آپ کو بھیجنے سے متعلق عدالتی فیصلہ موجود ہی نہیں ہے۔

عدالت نے مزید دریافت کیا کہ آپ کس حیثیت میں عدالت میں پہلے ہی موجود تھے؟ اسٹیٹ کونسل عبد الرحمن نے بتایا کہ اس روز میں موجود تھا، اس سے قبل موجود نہیں تھا۔

اسٹیٹ کونسل حضرت یونس نے کہا کہ میں نے مزید وقت لینا محسوس کیا، لیکن صبح سے انتظار کیا جا رہا تھا، میں نے درخواست نہیں دی کہ مزید وقت دیا جائے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ 26 جنوری کو دو سے تین بجے کے درمیان میں نے ریکارڈ ان کو دیا تھا۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے کتنا وقت ملے ؟ وکیل عبدالرحمن نے کہا کہ ہم ملے لیکن سوالات کے حوالے سے اتنی بات نہیں ہوئی، زیادہ وقت ہم بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کر سکے ، لیکن تھوڑی تھوڑی دیر مل رہے تھے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا آپ کبھی اس میں پہلے گئے تھے؟جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال اٹھایا کہ اگر آپ پہلے نہیں گئے تھے تو یہ کیوں لکھا ہے کہ آپ پورے پروسیڈنگ میں تھے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسٹیٹ کونسل حضرت یونس سے استفسار کیا آپ اسٹیٹ کونسل تعینات ہوئے تو آپ جرح کے لیے تیار تھے؟ چیف جسٹس نے استفسار ایک رات میں آپ سے جتنا ممکن تھا کہ آپ نے تیاری کرلی؟

سلمان صفدر نے اسٹیٹ کونسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان سے کوئی گلہ نہیں، انہوں نے کہا کہ آج ہی کی مثال دیکھ لیں کہ دلائل مکمل ہونے تھے، مگر شاہ صاحب نہیں آئے۔

چیف جسٹس نے اسٹیٹ کونسلز سے استفسار کیا کہ کیا آپ دونوں نے ملزمان سے کوئی مشاور کی تھی؟ اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پر ہمیں ملزمان سے مشاورت کرنے کی اجازت دی گئی تھی، اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمٰن نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے میرے ساتھ تقریباً دو منٹ لیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کیسے، میں ٹھیک ہو یہ بھی میٹنگ ہے، موکل سے مشاورت ہوتی ہے، آپ نے ایک رات میں تیاری کی تو اپنے موکل سے کتنے وقت کی تیاری کی؟

اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے میرے ساتھ مشاورت نہیں کی، انہوں نے ہمیں انگیج کرنے سے انکار کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسٹیٹ کونسل حضرت یونس سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنے موکل سے کتنی دیر تک مشاورت کی تھی؟ اسٹیٹ کونسل حضرت یونس نے کہا کہ میں نے اپنے موکل شاہ محمود قریشی سے مشاورت کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں مانے۔

عدالت نے کہا کہ کیا آپ دونوں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے آپکی وکالت سے انکار پر بیان حلفی دے سکتے ہیں؟ عدالت نے سائفر کیس میں تعینات دونوں اسٹیٹ کونسلز کو بیان حلفی جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے پروسیکوٹر ذولفقار نقوی سے مکالمہ کیا کہ کل شاہ صاحب کو کہیں آجائیں، اگر وہ نہیں آسکتے تو آپ دلائل دیں گے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کرانے کی متفرق درخواست دائر کردی گئی تھی ۔

ڈان نیوز کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی، اس میں استدعا کی گئی ہے کہ کچھ اضافی دستاویزات جمع کرانا چاہتے ہیں اجازت دی جائے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ درخواست میں ڈونلڈ لو کے بیان کی کاپی جمع کرانے کی اجازت لینے کی استدعا کیے جانے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہوئی کورٹ میں 6 مئی کو سائفر کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔

2 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 6 مئی تک ملتوی کردی تھی جس دوران عدالت نے دریافت کیا کہ کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟

گزشتہ سماعت کے دوران سائفر کیس میں ایک نیا موڑ سامنے آیا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ خفیہ کیبلز یا سفارتی مراسلہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قبضے میں تھا اور وہ ان کے قبضے سے غائب ہوگیا۔

اس سے قبل 22 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔

واضح رہے کہ 17 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا تھا کہ وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟

واضح رہے کہ اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

واضح رہے کہ 4 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔

اس سے قبل 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع ملتوی ہوگئی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جب کوڈڈ پیغام کو ڈی کوڈ کر کے کاپی بنائی جائے تو وہ بھی سائفر ہی رہے گا؟

یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں بھی سلمان صفدر نے بتایا تھا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی تھی۔

28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟

20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟

19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔

13 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

11 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔

26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔

16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔

اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024