حکومت کا کرغزستان معاملے پر انکوائری کمیٹی بنانے کا اعلان
نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحٰق ڈار نے کرغزستان میں طلبہ پر ہونے والے حملے کے معاملے میں انکوائری کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ہوگی جس کا نوٹی فکیشن آج ہی جاری کردیا جائے گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ روز قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس میں شرکت کے بعد کرغزستان میں ہمارے سفیر حسن علی ضیغم کو پیغام بھجوایا کو وہ اجلاس کے بعد کرغز وزیر خارجہ سے ملاقات کا اہتمام کریں۔
انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے بعد کرغزستان کے وزیرخارجہ سے ملاقات کی جس میں پاکستانی طلبہ پر حملے کے معاملے پر گفتگو کی اور ان سے درخواست کی کہ میں فوری طور پر بشکیک جاکر وہاں طلبہ کو دیکھنا چاہتا ہوں جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے تھوڑا وقت دیں۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے صدر سے بات کی، جس پر انہوں نے مجھے ویلکم کہا اور پھر میں اپنے کرغز ہم منصب کے ساتھ ہی آستانہ سے بشکیک روانہ ہوا، جہاں میں نے کرغزستان کے نائب وزیراعظم سے تفصیلی ملاقات کی جس میں انہوں نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ حالات اب معمول پر آچکے ہیں ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 18 مئی کے حملے کے بعد اب تک 3 ہزار سے زائد طلبہ کرغزستان سے پاکستان واپس آچکے ہیں اور آج رات تک یہ تعداد 4 ہزار تک پہنچنے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ 3 پاکستانی طلبہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور باقیوں کو پہلے ہی ڈسچارج کردیا گیا، جب میں نے ہسپتال کا دورہ کیا تو وہاں صرف ایک پاکستانی شہری موجود تھا، ہسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ 3 زخمیوں میں سے مزید 2 کو ڈسچارج کردیا گیا ہے اور وہاں موجود شاہ زیب کا جبڑا ٹوٹا ہوا تھا جو وہاں ایک ٹیکسٹائل مل میں کام کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب میں شاہ زیب سے ملا تو وہ پریشان تھا اور اس نے بتایا کہ وہ اٹک کا رہائشی ہے اور میرے والدین اس وقت بہت پریشان ہیں جو چاہتے ہیں کہ میں فوری طور پر وطن واپس آجاؤں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھ موجود کرغز ڈپٹی وزیراعظم سے پوچھا کہ میڈیکل عملے سے بات کرکے بتائیں کہ یہ بچہ اس حالت میں سفر کرسکتا ہے، اس کا باقی علاج پاکستان میں کیا جائے گا، جس پر شاہ زیب کو اجازت مل گئی اور میں نے پاکستانی سفیر کو ہدایت دی کہ انہیں فوراً لے جانے کے انتظامات کیے جائیں۔
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ کرغز ہم منصب سے ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ اس واقعہ سے کچھ دن پہلے مقامی اور ہاسٹل طلبہ کے درمیان ایک جھگڑا ہوا تھا جس میں بھارتی، بنگلادیشی اور عرب طلبہ بھی شامل تھے، تاہم میں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ اب حالات نارمل ہوگئے ہیں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ کرغز نائب وزیراعظم نے بتایا کہ ہمارے صدر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا، یہ طلبہ اور ورکرز ہمارے مہمان ہیں اور ہم نے بشکیک واقعے کے ملزمان کا تعین کرکے انہیں گرفتار کرلیا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سفیر نے بتایا کہ کرغزستان میں ہمارے 1100 ورکرز ہیں ایجنٹ کے ذریعے غیرقانونی طور پر یہاں مقیم ہیں اور حکومت انہیں تلاش کرکے ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس پر میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرغز حکام سے درخواست کی کہ ان 1100 لوگوں نے کبھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی لہذا ان کو ڈی پورٹ کرنے کے بجائے باضابطہ ویزا جاری کردیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں کرغز نائب وزیراعظم کا مشکور ہوں جنہوں نے فوری طور پر میری درخواست کو قبول کیا اور کہا کہ نیشنل سیکیورٹی اور دیگر متعلقہ حکام سے بات کرنے کے بعد اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ حکومت کرغزستان واقعے پر انکوائری کمیٹی بنارہی ہے، یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ہوگی اور آج ہی انکوائری کمیٹی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جائے گا۔
واقعہ کا پس منظر:
18 مئی کی رات کرغزستان میں مقامی انتہا پسندوں پر مشتمل مشتعل ہجوم نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والے پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی طلبہ کے ہاسٹل پر حملہ کر کے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔
ان حملوں کے بعد سیکڑوں پاکستانی طالبعلم بشکیک میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ بشکیک میں حملوں کے طلبہ کو مقامی انتہا پسندوں نے ہاسٹلز سے جبری بے دخل کرنا شروع کردیا تھا۔
جس کے بعد پہلے سے عدم تحفظ کا شکار یہ طلبہ بے سروسامانی کی حالت میں محفوظ مقامات تلاش کرتے رہے اور اس دوران انہیں کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت کا سامنا رہا۔