• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

گندم کی نقل و حمل پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، حکومت پنجاب

شائع May 20, 2024
—فوٹو: شہباز بٹ، وائٹ اسٹار
—فوٹو: شہباز بٹ، وائٹ اسٹار

محکمہ خوراک پنجاب نے واضح کیا ہے کہ اس نے گندم کی بین الصوبائی یا بین الاضلاعی نقل و حمل پر پابندی نہیں لگائی جب کہ اس نے اناج کی نقل و حمل سے متعلق نوٹیفکیشن کی ’غلط تشریح‘ کو کنفیوژن کی وجہ قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں فصل کی کٹائی کے رواں موسم میں گندم کی کثرت کا بحران ہے، بحران کی وجہ ملک میں فصل کٹنے کے وقت کے قریب نگران حکومت کی جانب سے اناج کی بھاری درآمد ہے۔

عام طور پر صوبائی حکومت 40 لاکھ ٹن سے زیادہ سالانہ گندم خریدتی ہے، تاہم اس کے باوجود کہ اس نے فصل بوائی کے موسم کے آغاز پر گزشتہ اکتوبر، نومبر میں ’مزید گندم اگاؤ‘ مہم بھی چلائی تھی، رواں سیزن میں صوبائی حکومت نے بلکل گندم نہیں خریدی۔

عام طور پر صوبائی حکومت سالانہ چالیس لاکھ ٹن گندم خریدتی ہے۔ تاہم، اس سیزن میں، اس نے گزشتہ اکتوبر اور نومبر میں بوائی کے موسم کے آغاز پر ”زیادہ گندم اگاؤ“ مہم چلانے کے باوجود کوئی گندم نہیں خریدی۔

بمبر فصل کاٹنے والے کاشت کار اب فری مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہیں اور پیداوار ایک ہزار روپے من بیچنے پر مجبور ہیں جو کہ 40 کلو گرام کے لیے مقرر کردہ سرکاری کم از کم سپورٹ پرائس سے بہت زیادہ کم ہے۔

دو روز قبل جاری سوشل میڈیا پر زیر گردش نوٹی فکیشن جس میں اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے اچھی ساکھ والے افسران کی چیک پوسٹوں پر تعیناتی کا کہا گیا، اس سے یہ تاثر گیا کہ حکومت پنجاب گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی لگا رہی ہے۔

محکمے کے ایک ترجمان نے اتوار کو وضاحت کی کہ گندم کی نقل و حمل پر پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔

حکومت پنجاب کی پالیسی کے تحت گندم کی بین الصوبائی اور بین الااضلاعی نقل و حمل کی مکمل اجازت ہے اور اس سلسسلے میں کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ کچھ عناصر اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے لکھے خط کو گندم کی نقل و حمل سے جوڑ رہے ہیں جو کہ مکمل طور پر غلط فہمی ہے۔

ترجمان نے وضاحت کی کہ چیک پوسٹوں پر تعینات اسٹاف گندم ڈلیوری کا ریکارڈ رکھے گا تاکہ اس بات کا پتا لگایا جا سکے کہ کتنی گندم کس ڈسٹرکٹ اور صوبے کو بھیجی گئی۔

انہوں نے کہا کہ دوسری دیگر اشیا کی طرح یہ ریکارڈ رکھنا ضروری ہے تاکہ بد عنوان عناصر کو مارکیٹ میں منصوعی قلت کا تاثر پیدا کرنے سے روکا جائے۔

حکومت خیبر پختونخوا کی خریداری

اسی حوالے سے سامنے آنے والی ایک پیشرفت میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے پاکستان ایگری کلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کو نظر انداز کرتے ہوئے گندم خریداری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس سے صوبائی حکومت کے 12 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

وزیر خوراک خیبر پختونخوا نے کہا کہ پاسکو ہمیں 40 کلو گرام گندم 5 ہزار 600 میں دے رہا ہے لیکن ہم نے کسان سے 40کلو گرام گندم 3 ہزار 9 سو میں براہ راست خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس نے حکومت کو 12 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

پاسکو حکومت کی زیر ملکیت کمپنی ہے جو پاکستان کے اسٹوریج سیکٹر کو آپریٹ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 3 لاکھ ٹن گندم مقامی کسانوں سے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ درآمد شدہ گندم کو مارکیٹ سے نہیں خریدا جائےگا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ حکومت نے گندم خریداری شروع کردی ہے، ابتدائی روز کو مقامی کسانوں سے خریداری کے لیے مختص کیا گیا ہے، 17 مئی کے بعد پنجاب کے کسانوں کو بھی گندم فروخت کرنے کی اجازت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی سرکاری افسر نے درآمد شدہ گندم صوبے میں حکومتی خریداری کے لیے لانے کی کوشش کی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ وفاقی نگران حکومت کی جانب سے درآمد شدہ 35 لاکھ ٹن گندم پنجاب میں اسٹاک تھی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت نے مقامی کسانوں سے گندم خریدنے سے انکار کیا۔

وزیر صحت خیبر پختونخوا نے کہا کہ پنجاب کے کسان مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، اس لیے ہم نے ان سے گندم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 20 کلو گرام آٹے کے تھیلے کی قیمت 3 ہزار 2 سو سے کم ہوکر ایک ہزار 650 روپے ہوگئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024